ڈاکٹر عبدالرؤف
ایک مشہور مغربی مفکر کا قول ہے ’جھوٹ اس قدر بولو کی سچ کا گمان ہو جائے۔‘ عصر حاضر کے سوشل میڈیا میں فلم انڈسٹری اسی راہ عمل پر گامزن ہے اور اہم حیثیت رکھتی ہے۔ زمانہ ماضی سے زمانہ حال تک فلمی صنعت صرف تفریح طبع کا بہترین ذریعہ رہی ہے یہ حقیقت بھی عیاںہے کہ فلمائے گئے تمام حالات و واقعات فرضی ہوتے ہیں، مزید فلمی کرداروں کی دنیا ہی الگ ہے۔ وہ جب سنیما اسکوپ میں آتے ہیں تو جس قوم و مذہب کا روپ دھارنا ہو وہی اختیار کرکے پردہ سیمیں پر پیش کرتے ہیں، ناظرین بڑے پردوں پر تین گھنٹے فلم دیکھ کر اپنی تفریح کی دنیا آباد کرکے محظوظ ہوتے ہیں ۔فلم انڈسٹریزکایہ کارنامہ ہے کہ کسی بھی کہانی کے ایک چھوٹے سے موضوع کو رائی کا پہاڑ اور تل کا تاڑ بناکرناظرین کی برین واش کردیں، بعض اسٹوری ومناظرکے پس پردہ ’حکومت کی ساحری بھی ہوتی ہے ‘ چونکہ فلم انڈسٹریز ایک ایسی دنیا ہے جہاں کروڑوں کروڑ روپے کی اندھی تجارت اور حکومت کی شاباشی ،بابا صاحب پھالکے ایوارڈ ،انعام وکرام سے نوازے جاتے ہیں۔فلم ڈائریکٹر،پروڈیوسر اورفلمی اداکاراؤں کو پدم بھوشن ،پدم شری ایوارڈ سے نوازا جانا ممبر پارلیمنٹ کے عہدہ پر سرفراز ہونا بھی اس کی تاریخ ہے۔
انہیںروایت کے مدنظر حالیہ فلم ’دی کشمیر فائلز‘ بھی منظر عام پر آئی جسے سنیما گھروں نے باکس آفس تک پہنچا دیا ،عوام میں اس کا چرچا بھی خوب ہورہا ہے ۔اثبات و نفی کی صدائیں بھی بلندہورہی ہیں۔ دانشوران اہل علم و مبصرین اپنی اپنی رائے سے نواز رہے ہیں۔
راقم نے تقریباًتین دہائیوں سے فلم نہیں دیکھی لیکن فلم اسکرپٹ کی صحافتی نقطہ نظر سے جراحی، میرا شیوہ ہے۔فلم ’دی کشمیر فائلزـ‘کشمیری پنڈتوں کی حالت زار پر مبنی کمرشیل فلم ہے اس میں ’واقعات ‘ بتائے گئے ہیں جو 1990 سے لے کرآج تک کی شورش میں پیش آئے ہیں۔ جسے وزیر داخلہ ہند نے کافی سراہا ہے۔اس فلم کے ڈائریکٹر کو اعزازت کی جھڑی لگی ہوئی ہے ۔سوشل میڈیا پر اکثر اسی طبقے کے فلم بینوں نے اسے خوب سراہا ہے،لیکن حقیقت کچھ اور ہے جسے ملک کے دانشوران اور ہر مکتب فکر کے صحافیوں نے اس فلم کے واقعات کو انتہائی مبالغہ آمیز قرار دیااپنی آرا پیش کیں ، کہ پنڈت برادری پر یک طرفہ مظالم ڈھانے کے واقعات جو فلمائے گئے ہیںاس کے برعکس مسلمانوں اور سکھوں پر ہونے والے مظالم، کاا س فلم میں کوئی ذکر نہیں ہے۔اس فلم میں ظالم صرف مسلم نوجوانوں کودکھایا گیا ہے اور کسی پہلو کا کوئی بیان نہیں ہے۔ اس نفرت انگیز فلم پر سوشل میڈیا پر کڑی تنقیدیں بھی ہورہی ہیں۔جسے یکطرفہ اور ’مسلم کمیونٹی ‘کے خلاف نفرت پھیلانے والی بتارہے ہیں۔بیرون ملک آباد لوگ بھی اس فلم کی شدید مذمت کررہے ہیں اس پر پابندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اس فلم کی نمائش کے بعد23؍مارچ کو دہلی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ شری اروند کجریوال نے اس فلم کی کہانی کو بالکل جھوٹی قرار دیا جسے پروپیگنڈہ کا ذریعہ بنا کرحکومت اور اس کے فلم ساز کروڑوں روپے کما رہے ہیں،موجودہ حالات یوں ہے کہ بی جے پی ذہنیت کے لوگ ہر شہر بازار وں میں کجریوال کے خلاف پوسٹر لگارہے ہیں، لیکن عوام الناس کی ایک بھیڑ ہے جو سنیما گھروں میں امڈی چلی جارہی ہے۔ حکومت کی جانب سے سیکورٹی کے انتظامات بھی سخت کئے جارہے ہیںمبادا کہ کہیں فرقہ وارانہ فسادات نہ ابھر جائیں ۔ ع:۔
آگ خود ہی یہ لگاتے ہیں ، ستم ڈھاتے ہیں
کام ابلیس کا آسان بنا دیتے ہیں
قارئین ذہن نشین رکھیںکہ1990میں اس وقت کے کشمیر کے گورنر جگموہن ملہوترہ کے حکم پر راتوں رات وہاں کے پنڈتوں کو نکالا گیا اور اس لئے نکالا گیا تھا کہ ایک بڑے آپریشن کے ذریعہ کشمیر سے مجاہدین کا مکمل صفایا کردے۔اس لئے یہ فکردامن گیرتھی کہ کشمیری ہندوپنڈت اس آپریشن کی زد میں نہ آئیں ۔ حالانکہ صدیوں سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشمیر میں خیر سگالی کی فضا قائم تھی، یہ ایک منظم سازش تھی جس میں مجاہدین کے نام پر مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔ جب کہ فلم میں اسے کشمیر ی پنڈتوں کے لئے نسل کشی (Genocide)کا نعرہ دیا گیا۔اگر 1990سے31؍ مارچ 2017تک کے وزرات داخلہ کے اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو 40,000 (چالیس ہزار) سے زیادہ لوگ یہاں مارے گئے ہیں جس میں 22,000 (بائیس ہزار)عسکریت پسند اور 5055 سیکورٹی اہل کار شامل ہیں۔ 2017کے آر ٹی آئی(RTI) کے جواب میں مرکزی وزارت داخلہ کے PRO نے کہا کہ کشمیر میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں 13491 شہری اور سیکورٹی فورسز کے 15055 اہل کار مارے گئے۔سیکورٹی فورسز نے گزشتہ27سالوں میں تقریباً 21,965 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا ہے اور ان سے لڑتے ہوئے 13503 فوجی زخمی بھی ہوئے۔ حالانکہ فلم سازوں نے اس سے قبل بھی پردہ سیمیں پر ’شین‘ ’شکارہ‘ آئی ایم اور اس طرح کی دیگر فلمیں کشمیری پنڈتوںپر مرکوز تھیں۔ حالیہ فلم نے سبھوں کا ریکارڈ توڑ دیا اور نفرت انگیزی تشدد کی انتہا کردی ہے۔ بالی ووڈ کے دائیں بازو کے فلم ساز ایک عرصے سے کشمیری مسلمانوں کے خلا ف نفرت پھیلا رہے ہیں۔ پروپیگنڈہ کررہے ہیں اور فلم کو نصف سچائی کے ساتھ منفی دکھایا گیا ہے۔کہا جارہا ہے کہ یہ کردار جے این یو کی پروفیسر نویدیتا مینن سے متاثر ہے۔
فلم دیکھیں تو اس کا آغاز ہی کشمیری زبان میں نفرت اور گالیوں سے ہوتا ہے۔مسلمانوں کو سچن تندولکرکا جوش وخروش سے نام لینے والے ایک کشمیری پنڈت لڑکے کی پٹائی کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نیز اس فلم میں مسلمانوں کو شیطان کے طور پر پیش کیا گیا جو کشمیری پنڈتوں کے لئے ناشائستہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جب مرکزی کردار کرشنا کے داداپشکرناتھ (انوپم کھیر)کا انتقال ہوجاتا ہے تو وہ اس کی راکھ کو ڈبونے کے لئے کشمیر جاتا ہے وہ اپنے دادا کے چار دوستوں سے ملتا ہے جو کرشنا کو کشمیر کی حقیقی کہانی سناتے ہیں۔درحقیقت یہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ پر مبنی فلم ہے۔اس کے مصنّف اور ہدایت کار ’وویک اگنی ہوتری‘ نے فلم کے ذریعہ نفرت کو فروغ دینے اور ہندومسلم ایکتا توڑنے کی کوشش کی ہے اور حیرت تو یہ ہے کہ اس فلم کوٹیکس فری قرار دیا گیا ہے ۔حاصل کلام یہ کہ درد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، سرکاری اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کشمیر سے تقریباً 41,117 مہاجر خاندان جموںمیںدرج رجسٹر ہیں اور مزید 21,000 دہلی اور دیگر ریاستوں میں رجسٹر ہیں۔جموں میں رہنے والے کل مہاجر خاندانوں میں سے37,128ہندو 2,246 مسلمان اور 1758 سکھ ہیں۔حال کا جائزہ لیں تو کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں دونوں کو نقصان پہنچا۔ گوکدال قتل عام، کینن یوش پورہ اجتماعی عصمت دری اور سوپورتشدد ،ان واقعات میں متاثر ین صرف کشمیری مسلمان ہیں۔آج تک کی رپورٹ کے مطابق 28000کے قریب زیر حراست کشمیری لاپتہ ہیں۔ افسوس کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ اس بالی ووڈ میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دکھانے کی کوشش کرے۔ جیلیں بھری ہوئی ہیں۔UAPAکے بے تحاشہ استعمال، جاں بحق ہونے والے کشمیری رہنمائوں کے اہل خانہ کو بھی جیل کی سلاخوں میں دھکیل دیا گیا۔
جمہوریت کے تمام دروازے بند ہوگئے ہیں اور بالی ووڈ حکومت کی ساحری کے اسیر ہیں۔ وزیر اعظم ووزیرداخلہ سے آشیرواد لے رہے ہیں۔ افسوس کہ سو شل میڈیا کی فلم نگری نے بھی قومی اتحاد، امن و شانتی کی دھجیاں اڑانے میں فن ابلیس کے حق کا خوب خوب استعمال کیا ہے۔اہل وطن کا فریضہ ہے کہ اس نفرت انگیز مہم کا بائیکاٹ کریں۔٭٭٭