جبر اور استبداد کا ایک اور ورق

0

شاہنواز احمد صدیقی
پچھلے دنوں رمضان بھر اسرائیل نے فلسطینیوں پرجو بربریت کا پہاڑ توڑے رکھا وہ تادم تحریر بھی جاری ہے بیت المقدس میں عام مسلمانوں، عقیدتمندوں اور سیاحوں کے ساتھ انتہائی بربریت آمیز سلوک کررہا ہے۔ اسرائیل نے حسب دستور تمام انسانی اقدار کو نظرانداز کرتے ہوئے خواتین کو زدو کوب کیا ہے اور ان کے ساتھ مارپٹ تک کی ہے۔ اسی دوران اسرائیل کے صدر اسحاق ہرگوز نے یہ امید ظاہر کی کہ عالم اسلام کا انتہائی محترم ملک سعودی عرب اس کے ساتھ سمجھوتے کرلے اور Abraham Accords کا حصہ بن جائے۔ مگر سعودی عرب نے اسرائیل کو واضح کردیا ہے کہ جب تک صہیونی ریاست فلسطینیوں کے حقوق نہیں مل جاتے؟
تب تک یہ امن مذاکرات ممکن نہیں ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اپیل اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل کی اعلیٰ ترین ’ عدالت‘ نے مغربی کنارے کے آٹھ گائوں کے ایک ہزار لوگوں کوان کے گھروں سے نکالنے کے صہیونی حکام کے قبضہ کو درست قرار دیا ہے۔ چند روز قبل صدر اسرائیل نے ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں یہ پیشکش کی تھی۔ اسرائیل کے صدر نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ نہ صرف سعودی عرب کے اندر کے حالات کو ساز گار بنانے میں کار گر ہوگا بلکہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان بھی رشتوں میں بہتری آئے گی۔ اسرائیل صدر نے سعودی عرب جانے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ خیال رہے کہ سعودی عرب 2002سے اسرائل کے ساتھ تعلقات کونارمل کرنے کی بات کرتا رہا ہے۔ بیروت میں ہونے والی عرب سربراہان کی کانفرنس میں اس سلسلہ میں جو شرائط بیان کی گئی تھیں ان میں سب سے اہم ارض فلسطین میں قیام امن اور ان کے حقوق کی بات کہی گئی تھی ۔ اسرائیل نے کئی عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار کرلیے ہیں۔ مذکورہ بالا ابراہم اکورڈس کے تحت اسرائیل نے یو اے ای ، بحرین، مراقش اور سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات بنا لیے ہیں۔
سعودی عرب کے فرماں رواں مسلسل اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ جب تک فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی وطن واپسی نہیں ہوجاتی ہے کے علاوہ یروشلم کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوجاتا تب تک اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ ممکن نہیں ہے۔2021میں اسرائیل کے غزہ پر جارحیت کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کی ایئر لائنز کو فضائی راہداری کی اجازت دے کر اس کو واپس لے لیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک سعودی عرب اپنے موقف پر قائم ہے۔ مگر بدقسمتی سے یروشلم جو کہ مسلمانوں کی اہم اور مقدس سرزمین ہے اس پر اسرائیل کا اڑیل رویہ اسی طرح برقرار ہے جیسا کہ گزشتہ 70سال قبل تھا۔ اس کے علاوہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جو مسلسل بربریت اورانسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اس کی پورے عالم اسلام میں مذمت کی جا رہی ہے۔
مغربی کنارے اور غزہ کے پٹی میں فلسطین کے جو آبائی شہری ہیں اور صدیوں سے ان کے آباواجداد وہاں رہتے آرہے ہیں۔ ان کو بے دخل کیا جا رہا ہے، ان کی زمینوں کو چھینا جارہا ہے، مکانات مسمار کرکے دنیا بھر سے یہودیوں کو بلا کر وہاں آباد کیا جارہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ان صفحات میں بھی یوکرین کے یہودیوں کو اسرائیل لانے کی بابت توجہ دلائی گئی تھی۔ جنگ وجدل کے شکار ہونے والے کسی بھی ملک کے شہری ہوں ان کی باز آبادکاری سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ہے مگر اسرائیل فلسطینیوں کو بے گھر کرکے دور دراز علاقوں سے یہودیوں کو فلسطینیوں کی زمین پر بسا رہا ہے۔ یہ صریحاً نسل پرستی پر مبنی رویہ ہے۔
فلسطینی اور مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے سمجھوتے کررہے ہیں اور قیام امن کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں مگر اسرائیل سمجھوتے کرکے ان کی خلاف ورزیاں کرتا آرہا ہے۔ عرب جنگوں اور مصالحتی کوششوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل کی یہ حکمت عملی اس کے توسیع پسندانہ منصوبوں کا حصہ ہے۔اوسلو سمجھوتہ کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کے محدود حقوق کو تو کسی حد تسلیم کرلیا تھا مگر اس سمجھوتے کے بعد اس نے دنیا بھر کے وہ ممالک جو اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے ، ان سے بھی سفارتی تعلقات قائم کر لینے میں کامیابی حاصل کرلی۔ آج ان محدودحقوق کو تسلیم کرنے کے بعد فلسطینیوں کی حالت کیا ہے اور کس طرح اسرائیل نے ایک اونچی دیوار بنا کر غزہ کے شہریوں کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ ہر سال رمضان میں کسی نہ کسی بہانے سے بربریت کا مظاہرہ کرکے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔
اسرائیل نے پچھلے دنوں اپنے ناپاک منصوبوں کو آگے بڑھانے میں اس وقت کامیابی حاصل کرلی تھی جب ڈونالڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرلیا تھا۔ امریکہ کا یہ موقف فلسطینیوں کے حقوق اور عالم اسلام کے جذبات کی صریحاً خلاف ورزی انسانی حقوق کے قوانین اور بے حرمتی تھا۔ صہیونی ریاست نے 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کرلیا تھا ۔ بعد ازاں 1980میں اس نے پورے علاقے پر اپنی ملکیت جما لی تھی۔ پوری عالمی برادری اسرائیل کی اس حرکت کو نامنظور کرتی ہے۔ سعودی عرب مسلسل واضح کرتا رہا ہے کہ عرب امن تجاویز پر عمل آوری ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا واحد راستہ ہے۔
اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندے عبداللہ المولینی نے واضح کردیا ہے کہ 1967میں جس طریقے سے اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہ فلسطینی علاقہ ہے اور خودمختار اور آزاد ریاست کا قیام اور مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کی راجدھانی بنانا ہی اس تنازع کا واحد حل ہے۔ سعودی عرب ، عرب ممالک اور پوری مسلم دنیا یہ چاہتی ہے کہ اگر اسرائیل ان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے تو اس کو مذکورہ بالا تمام تجاویز پر مکمل طریقے سے عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ خلیجی ممالک پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بحرین، یو اے ای اور دیگر چند ممالک نے جو اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے کیے ہیں وہ سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ ان تمام سفارتی سرگرمیوں اور پیش رفت کے پیچھے کہیں نہ کہیں مصلحت کارفرما ہے۔ یہ دونوں ممالک اور اس کے علاوہ سوڈان وغیرہ نے جو اسرائیل کے ساتھ مراسم بہتر بنائے ہیں اس کے پیچھے گزشتہ 70سال سے زائد عرصے کے دوران جنگ وجدل اور ٹکرائو کے ماحول کو ترک کرکے سفارت کاری کو ایک موقع دینا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اپنے ظالمانہ ، جارحانہ اور غیر انسانی حرکتوں سے کب اور کس حد تک باز آتاہے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے میں پیش قدمی کرتا ہے۔
اسرائیل کی فلسطینیوں کو اجاڑنے کی پالیسی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ صہیونی ریاست کی اعلیٰ ترین عدالت نے مغربی کنارے کے جنوب میں واقع مسافر یاتا علاقے میں صدیوں سے رہ رہے فلسطینی بدووں کی تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل آبادی کو اجاڑنے کے منصوبے کو’ قانونی‘ قرار دے دیا ہے، اس طرح علاقے کو ’ فلسطینیوں سے پاک‘ کرنے کی اسرائیل کی ہر حرکت کو اس فیصلہ کی بنیاد پر درست قرار دیا جاسکے گا۔ اسرائیل اس علاقے کو فائرنگ زون بنانے کے لیے خالی کررہا ہے۔
اسرائیل کے انسانی حقوق گروپ بی تسلیم B Taslem نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ان بدوئوں کو بے گھر ہونے سے بچائیں ۔ بی تسلیم نے کہاہے کہ اعلیٰ ترین عدالت کا یہ فیصلہ کہ بنیادی قانونی دائو پیچ کے ذریعہ غیر قانونی حرکت کو درست قرار دیا جارہا ہے۔
ناروے کے ایک انسانی حقوق ادارے The Norwegian Refugee Counail(این آر سی) نے اس فیصلہ کو خطرناک قرار دیاہے این سی آر کے ڈائریکٹر برائے فلسطینی کارولین اورٹ Caroline Ortنے کہا ہے کہ یہ بہت خطرناک قدم ہے اس کو فوراً واپس لیا جانا چاہیے۔ اس فیصلہ پر عمل ہوتا ہے تو اس سے تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ عالمی قوانین کی رو سے اسرائیل ایک غیر قانونی قابض اور ایک غیر قانونی طاقت موجودہ مکینوں کو ان کی مرضی کے خلاف ان کے گھروں سے اجاڑ نہیں سکتا ہے۔
مسافر یاتا 22کلو میٹر خطے پر مشتمل ہے اس علاقے میں 19گائوں آتے ہیں اور اس علاقے میں دوہزار کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ اسرائیل کی فوج نے 1980میں اس علاقے کو فوجی زون کے متصل علاقہ Firing Zone قرار دے دیا تھا۔
اسرائیل کے حکام یہاں کے رہنے والی آبادی کو مسمار کرنے کی مسلسل دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ ان کا یہ جواز ہے کہ ان کو تعمیرات کی اجازت نہیں ہے۔ یہ وہ پرست ہیں جن کو حاصل کرنا کسی نامل فلسطینی کے بس کی بات نہیں ہے۔
1993کے اوسلو معاملہ کے تحت یہ مغربی کنارہ تین زمروں، اے بی اور سی میں بٹا ہوا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کو صرف اے اور بی زمرے میں آنے والے علاقوں پر انتظامی حقوق حاصل ہیں۔
مسافر یاتا علاقہ ’ سی‘ زمرے میں آتا ہے۔ یہ علاقہ مغربی کنارے کا 60فیصد حصہ ہے اور صرف اسرائیل کی فوج کی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے اس علاقے کو زمرہ بندی کی گئی ہے، اسرائیل ، فلسطینی فلسطینیوں پر کنٹرول کرنے کے لیے جگہ جگہ فوجی پوسٹیں بنا تا رہا ہے۔ اس پر ایمرنسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر الزام لگایاتھا کہ وہ مقبوضہ علاقوں کے رہنے والوں پر نسل پرستانہ مظالم کررہا ہے۔
ایمرنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ 1948میں قیام کے بعد سے ہی علاقے میں یہودی آبادی کی اکثریت قائم کرنے کی کوشش شروع کردی تھیں اسرائیل یہاں کے وسائل پر کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا ہے اور ان علاقوں کے وسائل ان افراد کو پہنچا رہا ہے جو ناجائز طور پر یہاں لا کر بسائے گئے ہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے کے 18فیصد حصے کو ملیٹری زون کے طور پر استعمال کررہا ہے اور اس کو سی زمرے میں رکھا گیا ہے۔ ان علاقوں میں کسی بھی فلسطینی کو بغیر اجازت تعمیرات کی اجازت نہیں ہے ان فوجی علاقوں میں 62سو فلسطینی کے گھر ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS