زین شمسی
عید سعید کے موقع پر امریکی صدر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کی فضا بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ وہیں بین الاقوامی مذہبی آزادی کی نگرانی میں مصروف امریکی ایجنسی یو ایس سی آر پی ایف نے اس بات کو لے کر فکرمندی کا اظہار کیا ہے کہ بھارت میں پریس کی آزادی اپنے سب سے برے دور سے گزر رہی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر فرقوں کے ساتھ ناانصافی کی رپورٹنگ کرنے والے جرنلسٹ کو ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں سخت ترین مقدموں میں پھنسا کر صعوبتوں سے دوچار کیا جارہا ہے۔ تنظیم نے اس حوالے سے صدیق کپّن اور کشور رام کا بطور خاص نام بھی لیا ہے۔ تنظیم نے بھارتیہ میڈیا کی متعصبانہ روش کو گھیرے میں لیتے ہوئے یہ بھی ظاہر کیا کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کی مسلسل گراوٹ ملک کے لیے ترقی کی تمام راہیں محدود کردے گی۔ 180 ممالک میں میڈیا کی سطحیت کے گراف میں بھارت تین پائیدان مزید نیچے پہنچ کر 150ویں مقام پر جا پہنچا ہے۔
امریکہ ہی نہیں گاہے بگاہے یوروپ ، مغربی ممالک اور خلیج میں بھی بھارتیہ میڈیا اور بھارتیہ انتظامیہ کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں اور افسوس کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اس طرح کی آوازوں کو ملک میں لیفٹ میڈیا یا کانگریس حمایتی میڈیا کا نام دے کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے حکومت مخالف لابی کی کارکردگی سے بھی منسوب کر دیا جاتا ہے۔ یہ سوچنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ دنیا ہمیں ایک بازار کی نظر سے دیکھتی ہے اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ہماری زمین کا استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ پیسہ بھی کمایا جاسکے اور روزگار کے مواقع بھی نکالے جا سکیں لیکن جب انٹرنیشنل میڈیا میں بھارت کے ماحول کی رپورٹ شائع ہوتی ہے تو سرمایہ کاروں کے قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی کے میک ان انڈیا کا خواب پورا نہیں ہو سکااور سب کا ساتھ،سب کا وکاس کا سپنا بھی بھارتیہ ایجنسیوں کے مسلم مخالف رویوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔
دراصل ہمارا دیش بہت بڑا ہے۔ بڑا ہے تو مسائل بھی بڑے ہیں۔ علاقائی مسائل ہیں، مذہبی مسائل ہیں، معاشی مسائل ہیں، روزگار کے مسائل ہیں، تعلیم کا مسئلہ ہے۔ گویا ہر جہت کسی نہ کسی مسئلہ کی طرف توجہ مرکوز کرتی ہے۔ ان مسائل کے سدباب کے لیے ہی سیاست ہے۔ مگر سیاست ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہی سب مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ کواتنا آگے بڑھا دیتی ہے کہ تمام ضروری مسائل دب جاتے ہیں اور ملک ترقی کی جگہ تنزلی کی طرف جانے لگتا ہے۔
اخبارات نیوز کی جگہ ویوز دینے لگے ہیں۔ ٹی وی انفارمیشن کی جگہ نفرتی مباحثہ کا ایڈیٹ باکس بھر ہے۔ عوام جانکاری سے محروم ہیں، اس لیے بیداری پیدا نہیں ہورہی ہے۔ انہیں کنفیوز کیا جا رہا ہے۔ اس لیے وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ملک نے ایسا دور کبھی نہیں دیکھا تھا۔ فرق بس یہ ہے کہ آج لوگوں کو یہ پتہ چلنے نہیں دیا جا رہا ہے کہ ملک میں ہو کیا رہاہے۔ عید کے روز راجستھان میں جھنڈا پھہرانے کو لے کر تنازع ہوا تو مدھیہ پردیش میں دو دلتوں کو گئوکشی کے جرم میں لنچ کر دیا گیا۔ تو وہیں اتراکھنڈ کی ایک خبر ان دو خبروںپر بھاری پڑتی دکھائی دی کہ وہاں کی دو بہنوں نے اپنے باپ کی خواہش پوری کرتے ہوئے اپنی ڈیڑھ ایکڑ زمین عیدگاہ کو وقف کردی۔ ان کے والد نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں نماز پڑھنے کے لیے جگہ مہیا کرائیںگے۔ ان کی بیٹیوں نے اس وعدے کو پورا کر دیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اسی ہندوستان میں نفرت پنپ رہی ہے تو اسی ملک میں پیار بھی چھلک رہا ہے۔ حالات اور وقت دونوں کا کام بدلتے جانا ہے۔ ضرورت ہے حالات پر نظر رکھنے کی اور اس کے درست تجزیہ کی۔ سیاست کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سماج کو بدل دے مگرہمیشہ سماج ہی سیاست کو تبدیل کرتا ہے اور بھارت کا سماج بہت پختہ سماج ہے۔ یہ جلدی بدلنے والا نہیں ہے۔
ہم گھبرا جاتے ہیں کیونکہ ہم کسی بھی چیز کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ ہمیں بحران میں جینا نہیں آتا۔ جبکہ بحران میں ہی موقع ہوتا ہے۔ ہمیں رام نومی اور عید کے فسادات پریشان کر دیتے ہیں۔ اذان، نماز، طلاق، یکساں سول کوڈ اوربلڈوزر کی خبریں پریشان کرتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک طرح سے ہمیں فائدہ پہنچاتی ہیں، صرف دیکھنے کانظریہ بدلنا ہوگا۔ اگر آپ میڈیکل، انجینئرنگ، انتظامیہ اور دیگر بڑے عہدوں کے لیے ہونے والے امتحانات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کی لسٹ کو دیکھیں یا الیکشن میں مسلم ووٹ پیٹرن کو دیکھیں تو آپ کو اس بات کا احساس ہوگا کہ اس حکومت میں آپ زیادہ منظم اور بیدار ہوتے جارہے ہیں۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]