یوکرین جنگ پر دنیا بھر کے ممالک تین گروپوں میں بٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سمجھا جاتا تھا کہ برطانیہ، امریکہ کے ساتھ اور روس کے خلاف جبکہ جرمنی دونوں کے ساتھ ہے مگر گزشتہ دنوں جرمنی نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ یوکرین پر اس کی پالیسی وہی ہے جو امریکہ کی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم نریندر مودی کے تین یوروپی ملکوں کے دورے کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ تمام تر دباؤ کے باوجود ہندوستان نے یہی اشارہ دیا ہے کہ روس سے اس کے دیرینہ تعلقات ہیں اور امریکہ کو بھی وہ دوست مانتا ہے، کسی ایک کو نظرانداز کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ رہی بات ہندوستان کے روس سے تیل لینے کی تو اس پر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یہ کہہ کر جواب دے دیا تھا کہ روس سے جتنا تیل یوروپ ایک دوپہر میں خریدتا ہے، اس سے اتنا تیل ہندوستان ایک مہینے میں بھی نہیں خریدتا ہے مگر جرمن چانسلر اولاف شالتس نے روس پر ہندوستان اور جرمنی کے ’بڑے سمجھوتے‘ کی بات کر کے عالمی سیاست پر نظر رکھنے والوں کی نگاہیں وزیراعظم مودی کے دوۂ جرمنی پر مرکوز کر دیں۔ مودی-اولاف ملاقات کی اہمیت اس لیے بھی ہے،کیونکہ جرمنی کا چانسلر بننے کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم سے یہ ان کی پہلی ملاقات ہے۔ وزیراعظم مودی جرمنی کے بعد ڈنمارک جائیں گے۔ وہاں ان کی ملاقات ڈینش پی ایم میٹ فریڈرکسن سے ہوگی۔ وزیراعظم دوسرے انڈیا-نارڈک اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس میں ان کے علاوہ فن لینڈ، ڈنمارک، آئیس لینڈ، سویڈن اور ناروے کے وزرائے اعظم بھی شامل ہوں گے۔ واپسی میں وزیراعظم کچھ وقت کے لیے پیرس میں قیام کریں گے۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمینوئل میکروں سے ان کی ملاقات ہوگی ۔ دوسری بار صدر بننے کے بعد میکروں کی ہندوستان کے وزیراعظم سے یہ پہلی ملاقات ہوگی۔ اگر چند جملوں میں کہا جائے تو وزیراعظم نریندر مودی کے 65 گھنٹے پر مشتمل تین یوروپی ملکوں کے دورے، 8 عالمی لیڈروں سے ملاقات اور 25 میٹنگوں میں یہ بات سامنے آئے گی کہ یوکرین جنگ پر یوروپی ممالک ہندوستان سے کیا چاہتے ہیں اور اس جنگ پر ہندوستان کی پالیسی کیا وہی رہے گی جو اب تک رہی ہے۔ ویسے ہندوستان نے روس کو نظرانداز کرنے کا اشارہ ابھی تک نہیں دیا ہے۔
[email protected]
وزیراعظم کے اہم دورے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS