ہم جنس شادی کیلئے قانون سازی!

0

محمد فاروق اعظمی

شدید ترین گرمی، مہنگائی،بے روزگاری، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے لگام اضافہ، رام نومی، ہنومان جینتی کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد، کھرگون اور جہانگیر پوری میں مسلمانوں کو اجاڑنے کیلئے چلائی جانے والی بلڈوزر مہم کی ہنگامہ خیزیوں کے درمیان’ ہم جنس شادی‘ کو قانونی شکل دیے جانے کے سلسلے میں لوک سبھا میں پیش کردہ پرائیویٹ ممبربل وہ توجہ حاصل نہیں کرسکے جس کے وہ متقاضی تھے۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی ) کی خاتون رکن پارلیمنٹ سپریاسولے نے گزشتہ مہینہ لوک سبھا میںایک پرائیویٹ ممبر کا بل پیش کیا جس میں ہم جنس(ایل جی بی ٹی کیو آئی اے) پرست جوڑوں کیلئے مساوی قانونی حقوق اور ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ڈی ایم کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر ڈی این وی سینتھل کمار ایس نے بھی اسی نوعیت کا بل پیش کرکے ایل جی بی ٹی کیو آئی اے افراد کوباوقار زندگی گزارنے کے حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔
این سی پی کی قانون ساز سپریاسولے نے اپنے مسود ہ قانون میں مرد کی مرد سے عورت کی عورت سے شادی کوقانونی شکل دینے کیلئے اسپیشل میرج ایکٹ 1954میں بھی تبدیلیوں کی تجویز پیش کرتے ہوئے اس کی مختلف شقوں میں ترمیم کرکے شوہر اور بیوی کے الفاظ کو ’ شریک حیات‘ سے تبدیل کرنے کی وکالت کی ہے۔ اس کی دلیل دیتے ہوئے خاتون قانو ن ساز کاکہنا ہے کہ ہم جنس پرست(مرد اور عورت دونوں)افراد کو معاشرہ میں جبر، امتیازی سلوک اور سماجی بدنامی کا سامنا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے اور انہیں معاشرتی حقوق دینے کیلئے قانون میں یہ ترمیم اور تبدیلی لازمی ہے۔ محترمہ سپریا سولے نے اپنے مسودہ قانون(بل) پیش کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ377 کو ختم کر تے ہوئے ہم جنس پرستی کو 2018 میں ملک میں جرم کے زمرے سے خارج کردیا تھا لیکن اس کے باوجود ایل جی بی ٹی کیو آئی اے(ہم جنس پرست افراد کے مختلف زمرے) اب بھی شادی کرنے اور خاندان تشکیل دینے سے قاصر ہیں۔اس کمیونٹی کے افراد جانشینی، دیکھ بھال، پنشن وغیرہ جیسے حقوق سے محروم ہیں اور انہیں اب بھی معاشرے میں ظلم و ستم، امتیازی سلوک اور سماجی بدنامی کا سامنا ہے۔شہری حقوق اور شخصی آزادی میں ان افراد سے مساوی سلوک ختم کرنے کیلئے سپریا سولے نے آئین کی دفعہ 14 اوردفعہ 21 کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں شہریوں کے درمیان مساوی سلوک کی ضمانت دی گئی ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر سینتھل کمار نے بھی اپنے مسودہ قانون میں ایل جی بی ٹی کیو اے کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ اور بہبود کیلئے قومی پالیسی بنانے کے ساتھ ان میں شادی، گود لینے، سرپرستی اور کام کی جگہ اور رہائش میں امتیازی سلوک کے خلاف ممانعت ختم کرنے کی بات کہی ہے۔
’رضامندی سے ہم جنس پرستی‘ کوسپریم کورٹ نے جب سے غیرتعزیری قرار دیا ہے، اس کے بعد سے ہی نام نہاد ترقی پسندی اور کھلے معاشرہ کی ترویج اور ننگ پن کی مہم چلانے والی این جی اوز نے ہم جنس شادی کیلئے مہم چھیڑ رکھی ہے، اس سلسلے میں عدالت میں کئی عرضیاں عرصے سے زیر التوا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اسی مہینہ اپنے ایک فیصلہ میں دو بالغ خواتین کی شادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں ہائی کورٹ نے بچی کی والدہ کے حبس بے جا کیس کو نمٹا دیا تھا۔جبکہ دہلی ہائی کورٹ ہم جنس شادی کے معاملہ کو قانونی شکل دیے جانے کے معاملہ پر غور کررہا ہے۔ کئی دوسری اعلیٰ عدالتوں میں بھی ہم جنس شادیوں کی شناخت اور رجسٹریشن کا معاملہ زیرغور ہے۔
عدالتوں میں ہم جنس شادی کے حق میں عرضی دینے والوں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، ا سپین، جنوبی افریقہ، ناروے، سویڈن، جرمنی، ٓسٹریا، ہالینڈ، فن لینڈ، میکسیکو، بلجیم، ارجنٹائن، برازیل، فرانس، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، تائیوان، مالٹا اور چلی وغیرہ سمیت دنیا کے 31 ممالک ہم جنس شادیوں کو تسلیم کر چکے ہیں۔ اس لیے ہندوستان میں بھی اسے تسلیم کیاجاناچاہیے۔ لیکن عرضی گزار یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام ہندوستانی ثقافت، مذہب اور ہندوستانی قانون کے مطابق چلتا ہے، جس میں شادی کو مقدس حیثیت حاصل ہے اور ہندوستان کے تکثیری معاشرہ میں ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دیے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس معاملے میں مرکزی حکومت یہ دلیل بھی دے چکی ہے کہ ہمارے ملک کے قوانین ہم جنس شادی کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ ہندوستانی قانونی نظام میں شادی صرف حیاتیاتی مرد اور حیاتیاتی عورت کے درمیان ہوسکتی ہے۔ہم جنس شادی سے ہندوستانی ثقافت اور شادی کے پاکیزہ رشتہ پر برا اثر پڑے گا، مستحکم خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگااو ر مغرب کی نقل میں ہندوستانی معاشرہ بھی اخلاقی برائیوں کے سیل رواں میں بہہ کر تباہی کے غار میں جاگرے گا۔
انسانی حقوق اور شہریوں کے درمیان مساوی سلوک کے حوالے سے ان دو نوں مجوزہ قوانین کے مسودوںپرضرور غور کیاجانا چاہیے لیکن یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شادی، بیاہ اور خاندان جیسے مقدس ادارے کی تشکیل میں فطرت کے مسلمہ اصولوں کی خلا ف ورزی کیا نتائج لائے گی اورنسل انسانی پر اس کے کون سے مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم جنس پرستی رضامندی سے ہو یا جبراً یہ خلاف فطرت ہے اوراس کے مضمرات پوری نسل انسانی کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ حیوانات میں بھی اتنا شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنی شہوت پوری کرنے کیلئے اپنے ہم جنس کی طرف راغب نہیں ہوتے لیکن انسان جب پستی اور ذلت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسفل سافلین کا نقشہ پیش کرتے ہوئے جانوروں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ یہ کھلا ہوااعمال بد ہے جو کسی بھی معاشرہ کی تباہی اور بربادی پر منتج ہوتا ہے اورپوری نسل ختم ہوجاتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS