سیاسی استحکام اور مضبوط اپوزیشن

0

علیزے نجف

کسی بھی ملک کی سیاست میں برسر اقتدار حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اقتدار کا بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے، یہ حزب اقتدار کسی بریک سسٹم کی طرح کام کرتا ہے جو حکومت کی سمت و رفتار کو متوازن بنانے میں معاون ہوتا ہے اور ملک میں جمہوری اقدار کو محکم بناتا ہے ایک ایسی جمہوریت جس میں انسانی قدروں کو رو بہ زوال ہونے سے بچایا جا سکتا ہے جو لاقانونیت کی راہ میں حائل سب سے بڑی خلیج ہوتا ہے۔ یہ حزب اقتدار یعنی اپوزیشن کے لوگ ہی ہوتے ہیں جو حکومت کے من مانے فیصلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں، اس کے برعکس اگر اپوزیشن کمزور پڑ جائے تو تاناشاہی کو عروج ملنا شروع ہو جاتا ہے کیوں کہ اقتدار کا نشہ سارے ہی نشوں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ جب حکومت کے سامنے کوئی ایسی طاقت نہیں ہوگی جو اس سے بازپرس کر سکے تو اس کا اپنی آزادی کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا بالکل ایک فطری رویہ ہو گا۔
ہم ہمیشہ حکومت کو ہی لعن طعن نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد کر سکتے ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آزادی ہمارے حقوق محفوظ ہوں تو ہمیں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ذمہ دارانہ کردار کو نہ صرف متعین کرنا ہو گا بلکہ اس کے نفاذ کے لئے حکمت عملی بھی اختیار کرنی ہو گی ایسے میں اپوزیشن کا تعاون کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کس طرح عوام کی آواز کو اپنی آواز بنائے اور کس طرح کی کوشش سے اپنے وجود کو مستحکم بنائے، یہ ایسے سوالات ہیں جو یوپی کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے کسی نہ کسی حد تک ان کے ذہنوں میں پیدا کر دئے ہیں جس طرح یوپی میں بی جے پی نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا ہے اس نے بہتوں کے یقین کا بت پاش پاش کر دیا ہے اور یہ واضح کر دیا ہے کہ ایک مضبوط اپوزیشن اور عوام کا من پسند نمائندہ بننے کے لئے انھیں مزید خود پہ کام کرنا ہوگا عوام کی نظروں میں اپنی شبیہ کو مستحکم بنانے کے لئے عوام کے درمیان ہی رہ کر عوامی مسائل کو سمجھنا ہو گا حالیہ نتائج نے اپوزیشن پر یہ بات بھی اچھی طرح واضح کر دی ہے کہ اب عوام کو گمراہ کرنا آسان نہیں رہا کہ انتخابات کی تاریخ قریب آتے ہی اچانک سے اپوزیشن کا خواب غفلت سے بیدار ہو جانے، رفاہی کاموں کے بلند بانگ دعوے کرنے سے عوام انھیں اپنا نجات دہندہ نہیں خیال کر سکتے، عوام کو وقت یاد رہتا ہے جب ان کی آوازوں کو دبانے کے لئے ان پر بیجا تشدد کیا گیا ہوتا ہے تو کوئی بھی جماعت عملی طور پہ ان کے ساتھ نہیں رہی تھی۔ جب ماب لنچنگ میں کوئی خاندان اپنے پیارے سے محروم ہوا ہوتا ہے تو انصاف ملنے کی راہ میں حائل اڑچنوں کو دور کرنے کے لئے کوئی بھی حکومتی طاقت کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کر سکا تھا۔ اس وقت جو بھی مسائل درپیش تھے اپوزیشن اس پہ ایک مخالفتی بیان دے کر اپنا پلہ جھاڑ لیتی تھی، اب اچانک سے یہ کون سے مسیحا ہیں جو جوق در جوق چلے آ رہے ہیں، درحقیقت انھیں ہم سے نہیں اپنے اقتدار سے محبت ہے۔
بحیثیت عوام ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن اپنا چاک گریباں رفو کرے اور اگر وہ چاہتی ہے کہ آئندہ ہم عوام انھیں منصب اقتدار تک پہنچائیں تو پہلے انھیں اپنی کمیوں، کوتاہیوں کو قبول کرتے ہوئے ضبط و تحمل کے ساتھ عوامی مسائل پر نہ صرف بیان دینا ہو گا بلکہ ان مسائل کے حصول تک جد و جہد کرتے رہنا ہو گا۔ حکومت کے بے بنیاد مسائل کو چھیڑ کر اصل مسائل سے بھٹکا دینے والی کوششوں کے آگے چپ سادھنے کے بجائے سختی کے ساتھ اصل مسئلے کو موضوع بحث بنائے رکھنا ہوگا اس ضمن میں عوامی بیانات اور اپنے ردعمل کو ٹھوس دلائل کے ساتھ نہ صرف پارلیمنٹ میں رکھنا ہو گا بلکہ عدلیہ اور میڈیا کے سامنے بھی اس سچ کو پیش کرنے کا جتن کرتے رہنا ہو گا اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب کہ پیشگی طور پر ان ساری صورتحال کے لئے حکمت عملی تیار کی گئی ہو اس وقت ترسیل و ابلاغ کے بے شمار ذرائع ہیں جن کے ذریعے عوام کی بات سنی اور سمجھی بھی جا سکتی ہے اور ان تک اپنی کوششوں کی رپورٹ پہنچائی بھی جا سکتی ہے اور اس کے ذریعہ حکومت کی عوامی مفاد مخالف کوششوں کو طشت از بام پہ بھی لایا جا سکتا ہے اس سلسلے میں مجبوری کا یہ جواز بھی پیش کیا جانا کہ میڈیا بک چکا ہے وہ ایسی سچائی کو کبھی کور نہیں کرے گا یہ بات کسی نہ کسی حد تک سچ بھی ہے لیکن اس کے علاوہ عوامی میڈیا مطلب سوشل میڈیا ایسی جگہ ہے جہاں ابھی سچائی کی باتیں کہی اور سنی جا سکتی ہیں اس کے ذریعے عوام سے جڑے رہا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن جماعت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے پاس واضح منتظم کا ایک چہرہ بھی ہو جو فتح کی صورت میں اقتدار تک پہنچتا ہے ۔
اگر غور کیا جائے تو یوپی کے اسمبلی انتخابات کے نتائج حزب اختلاف کے لئے ایک ناکامی ضرور سہی لیکن انھیں ہر طرح سے بیدار کر دیا ہے اور انھیں بہت سے نئے سیاسی داؤ پیچ بھی سکھا دیے ہیں اوریہ بھی سکھا دیا ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی ایوانوں تک کی رسائی کیلئے پہلے انھیں عوامی مسائل تک اپنی رسائی کو یقینی بنانا ہو گا۔
اکھلیش یادو کی کار کردگی اور مقبولیت پچھلے انتخاب سے کہیں بہتر طور پر سامنے آئی، یہ کہیں نہ کہیں ان کے اور عوام کے لئے خوش آئند بات بھی ہے کیوں کہ کسی بھی جماعت کا اپوزیشن کا مقام حاصل کرنا چند سالہ کوششوں سے ممکن نہیں، اس میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ اب جب کہ کچھ سالوں میں لوک سبھا کا انتخاب ہونا ہے ایسے میں ایک مضبوط اپوزیشن ہی سیاسی موجوں میں اچھال پیدا کر سکتی ہے دو ہی جماعتیں ہیں جو قومی جماعت کا درجہ رکھتی ہیں ایک کانگریس دوسری بی جے پی کانگریس کی دگرگوں حالت اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ایسے میں ایک مضبوط اپوزیشن کا فقدان واقعی ایک مسئلہ ہے جس کا حل تمام چھوٹی بڑی آزاد سیاسی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں مضمر ہے۔ کجریوال اور ممتا بنر جی کی پارٹی بیشک عوام میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے لیکن ابھی اس کے مکمل قد کاٹھ کی نشو و نما میں سالوں لگنے ہیں بقول پرشانت کشور کے بیس سالہ جد و جہد کے بعد کوئی پارٹی قومی پارٹی کا مقام حاصل کر سکتی ہے۔
کانگریس کی جو حالت ہے وہ جگ ظاہر ہے ایسے میں مختلف پارٹیوں کا اتحاد ہی ایک مضبوط اپوزیشن کا مقام حاصل کر سکتا ہے۔ بغیر حکمت عملی کے محض نعرہ بازی سے کسی بھی طرح کی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ جس طرح اتر پردیش کے اسمبلی انتخاب کے بعد مہنگائی میں بھونچال آیا ہے وہ لمحۂ فکریہ ہے۔ پہلے عوام کو مختلف فری اسکیموں کے ذریعے اچھے دن آنے کے خواب دکھاؤ پھر اقتدار کے ملتے ہی ٹیکسوں میں اضافے، بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کر کے سب کچھ وصول کر لو یہ کوشش بہت عزت و احترام کے ساتھ تھپڑ رسید کرنے کی طرح ہے۔ ایک مضبوط اپوزیشن کی عدم موجودگی میں سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہوتا ہے، کسی بھی فیصلے کے اطلاق کی مخالفت کرنے والا جب کوئی نہ ہو تو کون ہے جو اپنے پر اوروں کے مفادات کو ترجیح دینے کی سوچے۔ حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے بعد مرکزی حکومت کے تیور جس طرح بیخوفی کے ساتھ سامنے آئے ہیں یہ اچھا شگون نہیں، جس طرح ایک خاص طبقے کے خلاف شدت پسندی اور تنفر سے کام لیا جا رہا ہے اگر اس کی بروقت روک تھام نہ کی گئی تو اس کے اثرات مزید گہرے اور وسیع تر ہوتے جائیں گے جس پر کہ عالمی میڈیا بھی اپنی تشویش ظاہر کر چکا ہے لیکن کسی کا تعاون اور ان کی ہمارے حق میں اٹھنے والی آواز تبھی کارگر ہو سکتی ہے جب ہم خود بھی اس کے خلاف اور اپنے تحفظ کیلئے حرکت میں ہوں اس لئے ملک میں جمہوریت امن اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سارے سیاسی مہرے اپنی چالوں کا ازسر نو جائزہ لیں اور ان کو ایک کامیابی کی سمت مرکوز کرنے کی سوچیں ورنہ ساری مخالفتی آوازیں نقار خانہ میں طوطی کی آواز ثابت ہوگی ۔جمہوریت یونہی نوحہ کناں نظر آئے گی، سیاسی عدم استحکام پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، اس وقت اپوزیشن کا اقتدار کے ساتھ تحفظ بھی مخدوش ہوتا نظر آئے گا۔٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS