ہولناک شکل لیتی بے روزگاری

0

ہندوستان میں بے روزگاری کے سنگین مسئلہ کا ایک دوسرا چونکا دینے والا رخ سامنے آیا ہے۔نجی تحقیقاتی فرم سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کے نئے اعداد و شمار کے مطابق مناسب قسم کی ملازمت نہ ملنے سے مایوس لاکھوں افرادخاص طور سے خواتین ورک فورس کے دائرہ سے مکمل طور پر باہر ہوگئی ہیں۔ ادھر بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں بھی خوفناک قسم کے اعداد وشمار سامنے آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 2017 اور 2022 کے درمیان ملک کی معیشت میں مجموعی طور پر مزدوروں کی شرکت کی شرح 46 فیصد سے گر کر40 فیصد تک آپہنچی ہے اور خواتین کارکنوں کی سوادو کروڑ کی بھاری تعداد ملازمت سے باہر ہوگئی ہے جب کہ صرف 9فیصد آبادی کو ہی روزگار ملا ہے۔
ملازمتوں کے شعبہ میں صورتحال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ کام کاج کی قانونی عمر والے 90 کروڑ سے زیادہ ہندوستانی اب ملازمت کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ملک کی یہ آبادی اپنی محنت کامناسب معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے مایوس ہوچکی ہے، ان کی مایوسی اگر جلد ہی ختم نہیں ہوئی تو اس کے نتیجہ میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔اگرنوکری پیشہ افراد کی مناسب تنخواہوں اور اجرتوں کی ادائیگی کا معاملہ حل نہیں کیاگیا تو ملک کی افرادی قوت کی یہ مایوسی عدم مساوات کی خلیج کو مزید بڑھاوادے گی۔ان سب کے باوجود حکومت کی نہ تو معیشت کی بہتری کی جانب کوئی توجہ ہے اور نہ ہی بے روزگاری کے معاملے پر حکومت کا کوئی پالیسی بیان آرہاہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں خاص کر نوجوان طبقہ میں مایوسی کی لہر تیزی سے پھیل رہی ہے۔
ایک اور جائزہ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی 15 سے 64 سال کی عمر کے درمیان والی آبادی کی تقریباً دو تہائی کے درمیان چھوٹی ملازمتوں کیلئے انتہائی سخت مقابلہ آرائی ہے۔سرکاری ملازمتوں میں ہر ایک اسامی کیلئے باقاعدگی سے لاکھوں درخواستیں آتی ہیں اور اپنے ساتھ سخت ترین مقابلہ آرائی کا ایک ایساماحول بھی لے آتی ہیں جن سے نوجوانوں میں مایوسی کی لہر پیدا ہوتی ہے۔میکنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی رواں سال کی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ ہندوستان میں نوجوانوں کی تعداد اور روزگار کے مواقع کے درمیان تال میل بنائے رکھنے کیلئے 2030تک ہندوستان کو کم از کم90ملین یعنی 9کروڑ نئے غیر زرعی روزگار کے مواقع کی ضرورت پڑے گی۔یہ ہدف حاصل کرنے کیلئے ملک کی مجموعی گھریلو پیداوارکی شرح نمو(جی ڈی پی گروتھ) 8فیصدسے8.5فیصد سالانہ ہونی چاہیے۔ لیکن اس کا دور دور تک امکان نظر نہیںآرہاہے۔
سی ایم آئی کے مطابق مارچ 2022 میں ملک بھر میں بے روزگاری کی شرح 6.60 فیصد تھی۔ شہروں میں بے روزگاری دیہی علاقوں سے کہیں زیادہ 7.62 فیصد تھی۔چار دن پہلے 25 اپریل کو بے روزگاری کی شرح 8.9 فیصدہوگئی جب کہ شہری علاقوں میں یہ 9.1 فیصد تھی۔ نام نہاد ’ ڈبل انجن‘ والی ریاستی حکومتوں میں تو یہ حالات اور بھی بدتر ہیں۔ مارچ کے مہینہ میں ہریانہ میں بے روزگاری کی شرح 26.6فیصد، جموں و کشمیر میں 25فیصد، بہار میں 14.4، تریپورہ میں14.1 اور ہماچل پردیش میں 12.1 فیصدتھی۔ ملک میں بے روزگای کی اس بدترین صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے حکومت اپنی شبیہ بہتر بنانے پر لگی ہوئی ہے۔روزگار کا ڈاٹا دینے کے بجائے وہ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ ستمبر2017سے فروری2022یعنی پانچ برسوں کے دوران ای پی ایف کے5کروڑ16لاکھ نئے اکائونٹس کھولے گئے ہیں یعنی ملک بھر میں ان پانچ برسوں کے دوران 5 کروڑ 16لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ملازمتیں وقتی ہیں اور معاہدہ کی بنیاد پر نجی اداروں سے تعلق رکھتی ہیں۔ معاہدہ کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ ملازمتیںبھی ختم ہوجائیں گی۔ان پانچ برسوں میں سرکاری شعبہ میں ملازمت کے حوالے سے حکومت مکمل طور پرخاموش ہے۔ حالانکہ وزیراعظم نریندرمودی نے سرکاری شعبہ میں ہی ہر سال2کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔ آٹھ برسوں سے وہ اقتدار میں ہیں، ان کے ہی وعدے کے مطابق اب تک 16کروڑ نئی نوکریاں لوگوں کو مل جانی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہیں ہوپایاہے۔ آج بھی مرکزی حکومت کے متعدد دفاتر میں لاکھوں اسامیاں خالی ہیں۔ ریلوے، بینک، ڈاکخانے، انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، کسٹم، ٹیلی کمیونی کیشن، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، سیاحت، جہاز رانی، ٹرانسپورٹ، ہوا بازی، دفاع وغیرہ کے محکموں میں بھرتیوں کا سلسلہ ہی بند کردیا گیا ہے۔ ملازمین کی قلیل تعداد کے ساتھ یہ محکمے اپنا کام کررہے ہیںجس کی وجہ سے کام کا معیار گررہاہے۔ ایک طرف بے روزگار افراد نوکریوں کیلئے مسلسل احتجاج کررہے ہیں تو دوسری جانب مختلف محکموں میں مزدور تنظیمیں بھی اسامیاں پر کرنے کیلئے حکومت کی توجہ مبذول کروا رہی ہیں۔ لیکن ’کفایت شعاری ‘ کاڈھونگ رچاکر حکومت ان مطالبات سے صرف نظرکیے ہوئے ہے۔ای پی ایف کے 5کروڑ 16لاکھ نئے اکائونٹس کا آدھاسچ بتاکر عوام کو گمراہ کرنادرحقیقت ملک کے لاکھوں کروڑ بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ کھلا دھوکہ ہے جس کا ثبوت بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور ملک کی افرادی قوت سے عورتوں کا بڑھتا انخلا ہے۔اسے اگر قابو نہیں کیاگیاتوکچھ بعید نہیں کہ سری لنکا کے بعد اگلا نمبرہمارا آجائے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS