ازقلم : امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
ملک ہندوستان میں اس وقت کئی تنازعات ابھر کر سامنے آرہے ہیں جو کسی ایک خاص مذہب سے تعلق رکھ رہے ہیں اگر ان تنازعات پر بحث کی جائے تو سارے کے سارے معاملات اسلام اور مسلمانوں سے ہی جڑے نظر آئیں گے۔
جیسا کہ ابھی چند دنوں قبل شہر کرناٹکا میں حجاب کا معاملہ پیش آیا پھر اس پر گہماگہمی کی صورت حال مسلط رہی، پورے ملک میں اسی پر تبصرے ہوتے رہے، عوام سے لیکر خواص تک ٹیلی ویژن چینل سے لیکر اخبار کے صفحات تک حجاب ہی کا ڈنکا بجتا رہا، نہ جانے کتنے لوگوں کو اسے مسئلے میں ڈرایا دھمکایا گیا، طالبات کو اسکول و کالج میں پڑھنے سے روکا گیا اسکے علاوہ امتحان کے موقع پر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ امتحان ہال میں بے پردہ لڑکیوں کو ہی داخل کیا جائے گا۔
ابھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ حلال میٹ کو بیچ میں لے آیا گیا، پھر اس پر بھی ماحول بہت ہی گرم رہا، مسلمان کو گوشت بیچنے اور کاٹنے سے منع کر دیا گیا اور لوگوں کے ذہنوں کو اس طرح بگاڑ دیا گیا کہ ہر بھگوے شخص کے اندر میٹ کاٹنے، بیچنے اور کھانے والے سے الجھن اور نفرت ہونے لگی، یہی وجہ رہی کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی جو کہ ملک ہندوستان کی ایک معروف و مشہور یونیورسٹی ہے، جہاں پر لاکھو طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرتے ہیں، جہاں پر مختلف مذاہب و عقائد کے لوگ رہتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں جہاں پر لاکھوں لوگ پڑھتے ہوں وہاں تو ہر کوئی آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والا نہیں ہوگا؟ ہر کوئی تو ایسا نہیں ہوگا جو نان ویج نہ کھائے، ہر شخص تو ایسا نہیں ملے گا جسکا گذارا صرف ویج ہی پر ہو، اسی کو مدنظر رکھتے پر یونیورسٹی نے بھی ایک مینیو جاری کیا جسمیں اس بات کو واضح کیا کہ کس دن یونیورسٹی ہاسٹل میس میں کیا بنے گا، کیا نہیں بنے گا، کس دن ویج بنے گا، کس دن نام ویج بنے گا، اور اسی کے حساب سے ہاسٹل کا میس جاری تھا، پھر جس دن مینیو کے حساب سے گوشت بنا اسی دن اے بی وی پی کے لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور طلبا و طالبات کے ساتھ مار پیٹ کیا۔
بہر حال مسئلہ حجاب کے بعد حلال میٹ کا کچھ دور چلا۔
اس کے بعد بابا کے بلڈوزر آپڑا، پھر اس کے ذریعے نہ جانے کتنے غریبوں، یتیموں، بیواؤں کے گھروں کو اجاڑ کر ویرانی کے حوالے کردیا گیا، بچوں کو گھروں سے نکال کر گندے نالوں اور کھلیانوں کے کنارے کر دیا گیا، یتیموں کے سروں سے انکا سایہ اٹھا کر انہیں دربار کا بھکاری بنا دیا گیا، عورتوں اور بچیوں کی خوشحال زندگیوں پر بلڈوزر چلاکر انکی زندگیوں کو گھروں سے نکال کر بے گھر کر دیا گیا، جبکہ جمہوریت اسکے خلاف ہے کیونکہ جمہوریت کا تقاضہ یہ ہے کہ جب کئی لوگ یا پورا ایک محلہ کسی غیر قانونی زمین پر اپنی زندگی گذار رہا ہو تو حکومت کو یہ چاہیے کہ گڈگورننس کا جامہ اوڑھ کر یا تو انہیں وہیں پر چھوڑ دے یا پھر انہیں کہیں اور شفٹ کردے، کیونکہ جمہوریت اس بات کی منافی ہے کہ پوری بستی پر بلڈوزر چلاکر انہیں یوں ہی چھوڑ کر انہیں بے گھر کر دیا جائے۔
بہر کیف ! بابا کے بلڈوزر نے ابھی سانس نہیں لیا تھا کہ ایک اور حساس معاملہ در پیش آیا گیا اور وہ ہے اذان بمقابلہ ہنومان چالیسا۔
قارئین! آج ملک بھر میں اذان بمقابلہ ہنومان چالیسا کی ہی بات چل رہی ہے کئی ریاستوں میں اذان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور یہ مہم اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ ہندوتوا تنظیم نے اسکے خلاف عدالت میں مفاد عامہ کے تحت غرضی بھی داخل کر دی ہے۔
بات یہاں رکی نہیں بلکہ مغربی ریاست مہاراشٹر کی ایک اہم پارٹی مہاراشٹر نو نرمان سینا یعنی ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر لاؤڈ سپیکر پر اذان کو بند نہیں کیا گیا تو ان کے کارکنان تین مئی کو مسجدوں کے باہر لاؤڈ سپیکر پر زور زور سے ہنومان چالیسا بجائیں گے۔
واضح رہے کہ ہنومان چالیسا ہندوؤں کے بھگوان ہنومان کی تعریف میں لکھا گیا 40 مصرعوں کا ایک کلام ہے جسے مقدس پاٹھ یا منتر کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اسے 16ویں صدی کے شاعر تلسی داس نے لکھا تھا جنھوں نے ہندوؤں کے بھگوان رام پر مبنی رزمیہ ‘رام چرترمانس’ بھی لکھی تھی۔
لیکن آج وہی رام جو شانتی اور امن و امان کا درس دیا کرتے تھے آج انہیں کے نام پر دنگا کرنے کی سازش کی جارہی ہے، آج انہیں کے دیئے گئے امن و شانتی پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے، آج انہیں کے درس و تدریس پر بابا کا بلڈوزر چلایا جا رہا ہے، کیا اگر رام اس وقت ہوتے تو وہ اس بات کو پسند کرتے کہ انکے ہی نام سے دنگے ابتدا کی جائے؟ ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ ایک مثبت خیال کے انسان تھے، امن و سلامتی انکی زبان سے ٹپکتی تھی۔
قارئین! آج ملک ہندوستان بہت ہی پر خطر ماحول سے گذر رہا ہے، ہر جگہ مسلم ہی نشانہ بنایا جارہا ہے اسی لئے آج مسلمانوں کو بھی منظم ہونا ہوگا، فرقہ واریت کو چھوڑ کر ایک جٹ ہونا پڑے گا، کیوں آج غیروں نے خالص مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے قطع نظر اسکے کہ وہ دیوبندی ہے یا بریلی، وہابی ہے جماعتی۔
اس لئے ہمیں اب ایک پلیٹ فارم پر آنا ہی ہوگا، اور اپنے محلے کی مسجدوں کو بھی منظم کرنا ہوگا، اگر انکا یہ الزام ہے کہ ہمیں اذان سے تکلیف ہوتی ہے تو مان لیں کہ ہوتی ہوگی اسمیں کوئی شبہہ نہیں، قطع نظر اسکے کہ وہ کیا چاہتے ہیں،انکے دل و دماغ میں کیا ہے وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، بظاہر تو انکا یہ الزام لگانا کسی حد تک صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ اس ملک میں ہر دھرم اور ہر مذہب کے لوگ موجود ہیں، ایسا تو ہے نہیں کے سارے لوگ ہیں مسلمان ہیں۔
اسی لیے ہوسکتا ہے فجر، ظہر اور عشاء کے وقت انہیں اذان کی آواز سے تکلیف ہوتی ہو کیونکہ یہ وہ اوقات ہیں جن میں خاص طور پر اکثر لوگ آرام کرتے ہیں۔
اسی لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی لاؤڈ سپیکر کی آواز قدرے کم کر لیں تاکہ انہیں بولنے کا موقع ہی نہ ملے، ہم جوش میں آکر ہوش نہ گنوا بیٹھیں بلکہ حکمت عملی سے کام لیں اور اسی کے ذریعے اس ملک میں اپنا لوہا منوائیں۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ اسلام امن و سلامتی والا مذہب ہے، امن و امان درس سب سے پہلے یہیں سے ملتا ہے۔
اسی لیے کسی کو ہماری اذان سے تکلیف ہورہی انکے نیندوں میں خلل آرہا ہو تو ہم اپنی اذانوں کی آوازوں کو تھوڑا کم کر لیں تاکہ اسلام کا معنی و۔ مفہوم بھی بر قرار رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر کا استعمال اتنا ہی کیا جائے جتنی ضرورت ہو۔
کیونکہ بہت سی جگہوں پر یہ بھی دیکھنے ملا ہے کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر اذان کے علاوہ نعت و منقبت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، نظامت و خطابت کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، اسکے علاوہ اذان کے بعد صلات و سلام کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اس حال میں کہ اس وقت کئی ہمارے ہندو بھائی خواب خرگوش میں ہوتے ہیں اس لیے ہمیں اس بات کی جانب بھی توجہ دینے کی ازحد ضرورت ہے۔
کہیں ایسا نہ کریں کہ جوش میں آکر اپنے ہوش گنوا بیٹھے اور اسی وجہ سے ہنومان چالیسا بھی پڑھا جانے لگے پھر ایک جھڑپ اٹھے اور لوگوں میں دنگے شروع ہو جائیں پھر نتیجہ یہ نکلے کہ مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر کے خلاف ہی کوئی فیصلہ آجاے اور لاؤڈ سپیکر میں اذان دینا ہی منع ہوجائے، اسی لئے ہمیں ہوش اور حکمت سے کام لینا ہے جوش میں نہیں آنا ہے ورنہ اسمیں ہمارا ہی نقصان ہوگا۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات۔