خواجہ عبدالمنتقم
انصاف کا تقاضا ہے کہ گنہگار کو کردہ گناہ کی، مجرم کو ارتکاب جرم کی، ظالم کو ظلم کرنے کی اور قاہر کو قہر ڈھانے کی سزا ملنی چاہیے، خواہ قصور وار عام لوگ ہوں یا انتظامیہ۔قصور وارکون ہے اس کا فیصلہ کرنا عدلیہ کا کام ہے۔ جب انتظامیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتے اور شہریوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے تو عدالت پر اس بات کی ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایسا فیصلہ دے کہ جس سے لوگوں کو انصاف ملے چونکہ عدالت کو شہریوں کے حقوق کا کسٹوڈین یا محافظ مانا جاتا ہے۔بھارت ایک ایسا وسیع اور عریض ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں مگر یہ بات بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ ہر دور حکومت میں فر قہ وارانہ فساد ات ہوتے رہے ہیںاور ان میں جانی و مالی نقصان ہوتا رہا ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب بند ہوگا؟ ہمارے ملک میں سخت قانون اور یکجہتی کی قدیم روایت کے باوجود صرف چند لوگوں کی بدنیتی اور تخریبی سوچ کے سبب تہواروں اور مذہبی جلوسوں کے دوران ہنگامہ آرائی ایک عام سی بات ہو گئی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے ایسی مثالیں بھی آتی ہیں جب ایک فرقہ کے لوگ دوسرے فرقہ کے جلوس یا یاترا میں ان کا پھول برسا کر استقبال کرتے ہیں۔
چند سال قبل گجرات ہائی کور ٹ نے احمد آباد کے شاہ عالم علاقے میں ہونے والے بلوہ سے متعلق اپنے فیصلہ میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ بہ پیش رفت غرض مشترکہ بلوہ میں شریک خلاف قانون مجمع کا ہر شخص بلوہ کرنے کا مجرم قرار دیا جائے گا۔ہائی کورٹ نے شہادت کی معتبریت پر شک ظاہر کرتے ہوئے بھی یہ بات کہی تھی کہ ثبوت و شہادت پیش کرنے کے معاملے میں بھی جانبداری سے کام لیا جاتا ہے۔ گجرات ہائی کورٹ کے اس کلیدی وعہد آفریں فیصلہ کو سب نے سراہا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ کایہ فیصلہ انتہائی مناسب، مدلل اور مبنی برانصاف اور قوت استدلال کا صریح اظہار تھا۔ کسی بھی فساد میں تمام تکنیکی ذرائع دستیاب ہونے کے با وجود مرتکب جرم کی نشاندہی انتہائی مشکل کام ہوتاہے۔ ویسے بھی کوئی بھی صورت حال کتنی ہی واضح، پریقین، نمایاں یا ہویدا کیوں نہ ہو،مبینہ ملزم کو مجرم قرار دینے سے قبل اس بات کو یقینی بنانااور ثابت کرنا ضروری ہوتاہے کہ جس شخص پر یہ الزام لگایا جارہا ہے، اس کی اس طرح کا جرم کرنے کی نیت، غرض یا منشا تھی بھی یا نہیں(ملاحظہ فرمائیے عالمی شہرت یافتہ ماہر قانون سالمنڈ کی تصنیف ’اصول قانون(Salmond on Jurisprudence)‘ صفحہ366)۔ جہاں تک میڈیا ٹرائل کی بات ہے، اس پر عدلیہ غور تو کرسکتی ہے لیکن محض اس کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی۔میڈیا کل کا مؤرخ ہے اورآنے والے کل کے تئیں اس کا یہ ناقابل تردید فرض ہے کہ وہ حقائق کو توڑے مروڑے بغیر مفادعامہ سے متعلق معاملات کی بابت خبروں، نظریات، تبصروں اور معلومات کو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے، دیانتداری، سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ عوام تک پہنچائے۔
جہاں تک تعزیرات ہند (جس کا اب نیا سرکاری نام مجموعہ تعزیرات بھارت ہے) میں بلوہ اور دیگر اسی طرح کی سرگرمیوں سے متعلق درج ذیل دفعات ہمارے لیے چشم کشا ہیں:
بلوے کی سزا: دفعہ147- جو کوئی بلوے کا قصور وار ہو، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی دو سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزایا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
مہلک ہتھیار سے مسلح ہوکر بلوہ کرنا: دفعہ148- جو کوئی کسی مہلک ہتھیار یا کسی ایسی چیز سے مسلح ہوکر، جو اگر آلہ جرم کے طو رپر استعمال کیا جائے، تو اس سے موت واقع ہونے کا امکان ہو، بلوہ کرنے کاقصور وار ہو، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی تین سال تک کی سزائے قید یا سزائے جرمانہ یادونوں سزائیں دی جائیں گی۔ مجمع خلاف قانون کاہر شریک اس جرم کا قصوروار ہے جس کا ارتکاب مشترکہ غرض کی پیش رفت میںکیا جائے۔
دفعہ149- اگر مجمع خلاف قانون کاکوئی شریک اس مجمع کی مشترکہ غرض کی پیش رفت میںکسی جرم کا ارتکاب کرے یا کسی ایسے جرم کا ارتکاب ہو جس کو اس مجمع کے شرکا جانتے ہوں کہ اس غرض کی پیش رفت میں اس کے ارتکاب کا امکان ہے تو ہر ایک شخص جو اس جرم کے ارتکاب کے وقت اس مجمع کا شریک ہو، اس جرم کا قصور وارہے۔
کسی مجمع میں، جس میں پانچ یازائد آدمی شامل ہوں، اس کے بعد کہ اسے منتشر ہونے کا حکم دیا گیا ہو،جان بوجھ کر شامل ہونا یا اس میں شامل رہنا۔
دفعہ151-جو کوئی جان بوجھ کر پانچ یازائد اشخاص کے کسی ایسے مجمع میں، جس سے امن عامہ میں خلل واقع ہونے کا امکان ہو، اس کے بعد کہ مجمع خلاف قانون کو منتشر ہونے کا حکم دیا گیا ہو، شامل ہو، یا شامل رہے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی چھ ماہ تک کی سزائے قید یاجرمانے کی سزایا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ سرکاری ملازم پر حملہ کرنا یا اس کے کام میںمزاحمت کرنا جب کہ وہ بلوے وغیرہ کو دبارہا ہو۔
دفعہ152-جو کوئی سرکاری ملازم پر اس وقت حملہ کرے یا حملہ کرنے کی دھمکی دے یا اس کامزاحم ہو یا مزاحم ہونے کا اقدام کرے جب کہ کسی مجمع خلاف قانون کو منتشر کرنے یا کسی بلوے یا ہنگامے کو دبانے میں ایسے سرکاری ملازم کی حیثیت سے اپنا کار منصبی انجام دے رہا ہو، یا ایسے ملازم پر قوت مجرمانہ کا استعمال کرے یا قوت مجرمانہ کے استعمال کی دھمکی دے یا اس کا اقدام کرے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی تین سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
بلوہ کرانے کے ارادے سے بلاوجہ اشتعال دلانا
دفعہ153- جو کوئی براہ خباثت یا بلاوجہ کوئی خلاف قانون امر کرکے کسی شخص کو اشتعال دلائے اور اس کا یہ ارادہ ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ ایسے اشتعال سے بلوے کے جرم کے ارتکاب کا امکان ہے تو اسے۔ اگر ایسے اشتعال کے نتیجے میں بلوے کے جرم کا ارتکاب کیاجائے، دونوں میں سے کسی بھی قسم کی ایک سال تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔ اور اگر بلوے کے جرم کا ارتکاب نہ ہو، دونوں میں سے کسی بھی قسم کی چھ ماہ تک کی سزائے قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
جیسا کہ ہمارے وزیر داخلہ نے فرمایا ہے کہ جہانگیر پوری کی ہنگامہ آرائی میںجو لوگ شریک تھے، انہیں ملک کے قانون کے تحت مثالی سزا دی جائے گی،ہمیں قوی امید ہے کہ عقبی کارروائی اس کا حقیقی مظہر ہوگی اور ملزمین کو اصول نصفت کے سو فیصد اطلاق اور غیرجانبداری سے کام لیتے ہوئے مجرم ٹھہرایا جائے گامگر یاد رہے کہ ملکی و بین الاقوامی قانون کے مطابق ہر شخص، جس پر کسی تعزیری جرم کا الزام لگایا جائے، اس امر کا حق رکھتا ہے کہ اسے اس وقت تک بے گناہ سمجھا جائے، جب تک وہ کھلی عدالت میں قانون کے مطابق قصوروار ثابت نہ ہوجائے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]