صبیح احمد
جمہوریت کو آج شدید بحران کا سامنا ہے۔ پوری دنیا میں جمہوریت تنزلی کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر جمہوریت مخالف رجحانات بڑی تیزی سے تشویشناک انداز میں بڑھ رہے ہیں۔ آخر اب تک کے سب سے بہترین نظام حکمرانی کو یہ خطرہ کیوں درپیش ہے؟ درحقیقت جمہوریت ہمیشہ سے ہی ایک عجوبہ اور حیرت انگیز تصور رہا ہے۔ اس میں سماج کے غریب اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ طبقوں پر مشتمل ’اکثریت‘ کا جنہیں اختیارات کے ا ستعمال کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا، ان اشرافیہ پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے جن کے پاس تاریخی طور پر جائیداد، دولت اور حکمرانی ہوتی ہے۔ اس لیے اس بات پر قطعی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ عہد رفتہ میں اشرافیہ طبقہ کے کچھ لوگ جمہوریت کو ہجوم کی غلامی کے طور پر دیکھا کرتے تھے۔
بہرحال اس تضاد کے باوجود جمہوریت اپنی ابتدا سے ہی مختلف شکلوں میں قدیم یونان میں فروغ پاتی رہی اور ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ نامور امریکی ماہر سیاست فرانسس فوکویاما نے 1990 کی دہائی میں آزاد خیال جمہوریت کی ’تاریخ کے خاتمہ‘ کے طور پر پذیرائی کی ہے۔ انہوں نے اسے انسان کے ذریعہ وضع کردہ اب تک کا بہترین نظام حکومت قرار دیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ان کے اس قول کے صرف 2 دہائیوں بعد ہی آخر کیوں ہم لوگ دنیا کی بڑی جمہوریتوں کو بحران کا شکار دیکھ رہے ہیں؟ معروف غیر سرکاری تنظیم ’فریڈم ہائوس‘ کے مطابق پچھلے15 سالوں سے دنیا بھر میں آزادی زوال پذیر ہے۔ آمریت پسند عناصر رفتہ رفتہ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ بڑی جمہوریتیں اپنے اندر ہی سمٹنے لگی ہیں۔ جمہوریت کے انحطاط کا سلسلہ 2006 میں جب سے شروع ہوا ہے، آزادی پر قدغن والے ملکوں کی تعداد اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ 15 برسوں کے دوران 73 ملکوں میں آزادی تنزلی کا شکار ہوئی ہے اور یہ ممالک 75 فیصد عالمی آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔جن ملکوں میں آزادی انحطاط پذیری کا شکار ہوئی ہے، ان میں صرف چین ، بیلاروس اور وینزویلا جیسے آمریت پسند ممالک ہی شامل نہیں ہیں بلکہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور ہندوستان جیسے خلفشار کی شکار جمہوریتیں بھی شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کا درجہ ’آزاد‘ سے ’جزوی طور پر آزاد‘ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے 20 فی صد سے بھی کم لوگ اب ’آزاد‘ ملک میں سانس لے رہے ہیں۔
سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ایسا لگتا تھا کہ اب آمریت اور مطلق العنان حکومتیں ماضی کا قصہ بن جائیں گی اور نظریات کی عظیم جنگ آخر کار جمہوریت نے جیت لی ہے لیکن آج دنیا بھر میں جمہوریت پہلے کے مقابلے کمزور تر ہو چکی ہے۔ آزادانہ و منصفانہ انتخابات، اقلیتوں کے حقوق، پریس کی آزادی، اور قانون کی حکمرانی جیسی بنیادی جمہوری اقدار مسلسل دباؤ کا شکارہیں۔ جمہوری ممالک میں ایسے رہنما مقبول ہوتے جا رہے ہیں جو تارکین وطن کے خلاف ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کی پروا نہیں کرتے۔ اس کی حالیہ مثال ہالینڈ، فرانس، جرمنی اور آسٹریا ہے، جہاں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ آج کل کے نوجوان جنہیں فسطائی طاقتوں کے خلاف لوگوں کی طویل جد وجہد کے بارے میں علم نہیں، ان کا جمہوریت پر سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے اور وہ جمہوریت کی خاطر کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں دکھائی دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں میں جمہوریت کے حوالے سے ایک خطرناک لاپروائی پروان چڑھ رہی ہے اور ان کے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے یہاں جمہوریت ہے یا نہیں۔
تو کیا ’نیشن اسٹیٹ‘ کا نظریہ پھر سے اپنے پائوں جمانے لگا ہے؟ موجودہ صورتحال میں آخر جمہوریت کا مستقبل کیا ہے؟ دراصل سیاست کے اصل دھارے میں جمہوریت مخالف سیاست دانوں کے عروج اور دبدبہ نے لوگوں کو کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ لوگ اسے جمہوریت کے انحطاط کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ جیسے رہنما کی جیت اور صدارتی انتخابات کے دوران ان کی شعلہ بیانی اور جمہوری اصول اور ضوابط سے کھلے عام انحراف، برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے دوران پوروپین یونین سے علیحدگی کا اعلان اور دنیا کے مختلف ممالک میں غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف عوامی رجحان سے واضح پیغام ملتا ہے کہ اب دنیا میں قوم پرستی کا جذبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ ہی کیوں؟ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی یہ رجحان زور پکڑنے لگا ہے۔ خود ہمارے ملک ہندوستان میں بھی جمہوری ادارے مسلسل دبائو میں ہیں۔ جمہوری حقوق اور اقدار کی پامالی اب عام بات ہو گئی ہے۔ حکمراں جماعتیں اپنے حریفوں کے وجود کو ہی تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں آ رہی ہیں جبکہ مسابقت میں بھی اصول وضوابط ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ منصب پر فائزبرسر اقتدار پارٹی کے رہنما بہ بانگ دہل عوامی سطح پر یہ کہنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے کہ فلاں سیاسی جماعت کا خاتمہ ہی ان کا مقصد ہے۔
غرض کہ دنیا میں قوم پرستی اور ’نیشن اسٹیٹ‘ کا تصور ابھر کر پھر سامنے آ رہا ہے۔ مذہب اور قوم کے نام پر سیاسی اغراض و مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں۔ جمہوریت کے نظام کو اگر فی الحال خطرہ نہیں ہے تو اس کے مستقبل کو روشن بھی نہیں کہا جا سکتا۔ آج اس نظام کے انتہائی بنیادی جزو ’مستند اپوزیشن‘ کے آئیڈیا کو ہی خطرہ لاحق ہے۔ جمہوریت میں سیاسی حریفوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے وجود، سیاسی مسابقت اور حکمرانی کے حق کو تسلیم کریں۔ سیاسی پارٹیوں میں اختلافات لازمی طور پر ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کو سچے قوم پرست کی طرح دیکھیں اور یہ بھی تسلیم کریں کہ دوسرا فریق بھی کبھی انتخابات جیت سکتا ہے اور ملک کی قیادت کر سکتا ہے۔ اس طرح کی آپسی قبولیت کے جذبہ کے بغیر جمہوریت کو تباہی سے بچانا بہت مشکل ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ حکومتیں اپنے آمرانہ اقدام کو درست ثابت کرنے کے لیے اس دعویٰ کا استعمال کرتی رہی ہیں کہ ان کے حریف غدار یا مجرم یا ملک و قوم کے لیے خطرہ ہیں۔ اس رجحان پر لگام کسنے کے لیے جمہوری اداروں کو اپنا اپنا کردار ایمانداری کے ساتھ نبھانا ہوگا۔ ’چیک اینڈ بیلنس‘ کا آئینی نظام جب تک مضبوط ہے، جمہوریت زندہ رہے گی۔
بالخصوص ہندوستان میں 2014 کے بعد سے سیاسی حقوق اور شہری آزادی کو لاحق خطرے میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں خصوصی ’دھرم سنسدوں‘میں تشدد کی پیروی،نفرت انگیز تقاریر، اقلیتوں میں خوف وہراس پھیلانے اور آئین کو نیچا دکھانے کی محدود سوچ نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو نہ صرف چوٹ پہنچائی ہے بلکہ ان تمام شہیدوں کی توہین بھی کی ہے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی میں اپنی جانوں کی قربانی دی۔ بہرحال ان خوش قسمت شہریوں پر بھی جو آج جمہوریت کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، کچھ ذمہ داریاںعائد ہوتی ہیں۔ انہیں اپنی سیاسی توقعات اور پریشانیوں کے اظہار کے لیے تخریبی راستے اپنانے کے بجائے تعمیری طریقے اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوریت اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے جتنی کہ اس کے شہری چاہتے ہیں۔
[email protected]