محمد فاروق اعظمی
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے ملک کے کروڑوں طلباکیلئے ایک بڑا فیصلہ کیاہے۔ اس فیصلہ کے تحت اب طلبا بیک وقت دو ڈگریاں حاصل کر سکتے ہیں۔یعنی طلبا ایک سیشن میں بیک وقت دو ڈگری کورسز کر سکتے ہیں،اگرطلبا چاہیں تو انہیں ایک ہی وقت میں مختلف اسٹریمز کے دو مختلف ڈگری کورسز کرنے کی بھی اجازت ہوگی اور اس طرح حاصل ہونے والی دونوں ڈگریاں مکمل طور پر درست ہوں گی۔اس کیلئے یو جی سی نے ایک گائیڈ لائن بھی جاری کی ہے اور تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، تعلیمی اداروں اور کالجوں کے سربراہوں کو خط لکھ کرکہا ہے کہ وہ طلبا کی سہولت کیلئے ان ہدایات پر عمل درآمد کریں۔ یوجی سی کا یہ فیصلہ نئی تعلیمی پالیسی2020 کا ایک تسلسل ہے اور کہاجارہاہے کہ اس سے تعلیم کو مزید تجرباتی، جامع، مربوط، تحقیقات اور دریافت پر مبنی، سادہ اور خوشگوار بنایاجاسکتا ہے۔
بظاہر یوجی سی کا یہ فیصلہ طلبا کے حق میں محسوس ہورہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میںجہاںتعلیم کاروباری شکل اختیار کرکے عام طلبا کی رسائی سے دور ہوتی جارہی ہو، یہ فیصلہ غیر عملی ہی کہا جائے گا۔ملک میں کالجوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ طلبا کی موجودہ ضروریات کی کفالت کرسکے۔ آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن کے حالیہ سروے کے مطابق ملک میں ہر ایک لاکھ شہریوں کیلئے صرف30کالج ہیں۔ملک کی بڑی ریاستوں بہار، مغربی بنگال، اترپردیش، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور مرکزی علاقہ بشمول دہلی میں تو صورتحال اور افسوس ناک ہے۔قومی دارالحکومت دہلی میں فی لاکھ آبادی میں صرف 8کالج ہیں۔ ملک کی بڑی ریاستوں میں سے ایک بہار اس فہرست میں سب سے نیچے ہے، وہاں فی لاکھ شہریوں کیلئے 7 کالج ہیں، جن میں جھارکھنڈ اور مغربی بنگال بالترتیب 8 اور 13 کے ساتھ پیچھے نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ہر ہرسال نئے طلبا کی وجہ سے ان کالج پر دبائو بڑھتا ہی رہتا ہے۔بہار میں ہر کالج میں سالانہ اوسطاً 1703 طلبا، جھارکھنڈ میں 1938 طلبا، مغربی بنگال میں 1179 طلبااور دہلی میں 1620 طلباداخلہ لیتے ہیں۔ اب یہ طلبا بیک وقت دو کورسز میںداخلہ لیں اور تعلیم آن لائن ہو یا آف لائن دونوں ہی صورتوں میں اسی تناسب میں ان طلبا کیلئے تدریسی عملہ کی ضرورت پیش آئے گی لیکن ملک کا موجودہ تعلیمی ڈھانچہ اور تدریسی عملہ کی تعدادریگولر طلبا کی کفالت سے ہی معذور ہے تو ایسے میں ایک ساتھ دو دو کورسز کی تعلیم کتنی عملی ہوگی، یہ سمجھاجاسکتا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی نافذ ہوئے تقریباً دو سال کی مدت گزرچکی ہے لیکن تعلیم میںجس بہتری کا دعویٰ کیاگیا تھا وہ کہیں نظرنہیں آرہی ہے۔
ہندوستان میں تعلیم کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ سطح تک کی تعلیم کاجو معیار ہے وہ نہ دانش پیدا کررہی ہے اور نہ اس کی گود سے کلرک ہی نکل رہے ہیں۔ رسمی طورپر ڈگریوں کی تقسیم کا ایک سلسلہ ہے جس میں طلبا کی بھاری تعداد شامل ہوتی ہے اور ڈگری حاصل کرکے خود کو تعلیم یافتہ سمجھنے لگتی ہے۔ بین الاقوامی پیمانہ پر ملک کی اعلیٰ تعلیم کامعیار پرکھا جائے تو ماسوا چند ایک تعلیمی اداروں کے مجموعی طور پر اعلیٰ تعلیم کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے۔دنیا کی 500ٹاپ یونیورسیٹیوں میں ہندوستان کے صرف تین تعلیمی ادارے ہی شامل ہیں جن میں بنگلور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کا مقام 323واں، آئی آئی ٹی ممبئی کا405واں اورآئی آئی ٹی کھڑگپور کا 484واں مقام ہے۔ اعلیٰ تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے حکومت نے چند ایک اقدامات بھی کیے جن میں NAAC میں اصلاح، یونیورسٹیوں کو گریڈ کے مطابق امداد دینا، آن لائن ڈگریاںدینے کے سلسلے میں ضابطے سازی وغیرہ شامل ہیں۔ باوجود اس کے اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔ملک میں فی الحال یونیورسیٹیوں کی تعداد 850ہے جن میں سے152مرکزی یونیورسٹیزہیں، 316 ریاستوں کی یونیورسٹیز ہیں اور191پرائیویٹ یونیورسٹیز ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب یونیورسیٹیوں میں تعلیم کا موجودہ معیار بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ تحقیق کے شعبہ پر توجہ دی جاتی ہے اور اسے دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ یو جی سی کے قیام کا بنیادی مقصد ہے لیکن اس کے برخلاف دوہری ڈگری کی اجازت دے کر یو جی سی موجودہ ناقص تعلیمی ڈھانچہ پر ہی بوجھ بڑھارہی ہے۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے، کالج اور یونیورسیٹیاں جن کا مقصد ہی دولت کمانا ہوتا ہے یو جی سی کے اس اقدام سے انہیں طلبا کو نچوڑنے کا ایک اور موقع ہاتھ آئے گا اور وہ طلبا کو بیک وقت دو کورسز میں داخلہ دے کر دوہری رقم بٹورنے کے ساتھ طلبا کے استحصال کی نئی نئی راہ بھی نکالیں گے۔ان ہی خدشات کے پیش نظر ماہرین تعلیم کے ایک بڑے حلقہ میں یو جی سی کے اس فیصلہ کی تنقید ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ نجی تعلیمی اداروں کے مفاد کے پیش نظرکیاگیا ہے۔ ویسے بھی حالیہ برسوں میں اپنے چند ایک فیصلہ کی وجہ سے یو جی سی تنقید کی زد پر رہاہے اور ماہرین اسے ختم کرکے اس کی جگہ ایک بااختیار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کی سفارش کرچکے ہیں۔
ہندوستان میں اس وقت اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے طلبا کی مجموعی تعداد تقریباً 4کروڑ ہے۔طلبا کی یہ بھاری تعداد اگر دوہری ڈگری کے حصول کا فیصلہ کرلیتی ہے تو اسی تناسب میں تعلیمی اداروں اور تدریسی عملہ کی ضرورت پڑے گی جس کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ ابھی تو یہ حال ہے کہ یو جی سی اعلیٰ تعلیم کے نام پر چل رہے فرضی تعلیمی اداروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہی برسوں لگادیتی ہے۔یو جی سی کا مانیٹرنگ سسٹم بھی ہمیشہ ہی سوالوں کی زد پر رہاہے، ایسے میں 8کروڑ طلبا کی تعلیمی ضروریات پر یوجی سی کی نگہداری کس حد تک ممکن ہے، صرف سمجھاہی جاسکتا ہے۔
ضرورت تو یہ ہے کہ یو جی سی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تعلیم کو بین الاقوامی معیار کے مساوی بنانے کی کوشش کرتا۔دوہری ڈگری کافیصلہ ہوسکتا ہے کہ طلبا کے چند ایک مخصوص گروہ کیلئے فائدہ مند ہو لیکن مجموعی طورپر یہ فیصلہ طلبا میں علم و دانش کے اضافہ کے بجائے ان میں صرف ڈگریوں کے حصول کاجذبہ ہی جگائے گا اور موجودہ تعلیمی ڈھانچہ پر بھاری بوجھ ثابت ہوگا۔
[email protected]