ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
دستوری رہنمائیوں اور احکامات کی روشنی میں خواتین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے مرکزی و صوبائی حکومتوں نے وقتاًفوقتاً متفرق قوانین و متعدد پالیسیاں اختیار کیں، مثلاً گھریلو تشدد پر روک تھام کے لیے مخصوص قانون بنایا، جہیز و ستی جیسی سماجی برائیوں کی روک تھام کے لیے خاص قانون بنائے، تعزیرات ہند(انڈین پینل کوڈ) میں الگ باب ’’خواتین کے خلاف جرائم‘‘موجود ہے، ورک پلیس(کام کرنے کی جگہ) پر ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے سپریم کورٹ نے ’’وشاکھا بنام اسٹیٹ آف راجستھان‘‘ کے تاریخی فیصلے میں رہنما اصول متعین کیے، تاہم ان تمام دستوری شقات، قوانین اور حکومتی پالیسیوں کے بعد خواتین کی صورت حال میں کیا تبدیلی آئی؟ اس اہم سوال پر ایک تجزیاتی مطالعہ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اہم دستوری اقدامات میں1993کا مرکزی قانون برائے حقوق انسانی قانون اور پھر نیشنل و صوبائی کمیشن برائے حقوق انسانی کا قیام، خواتین کے مسائل کے جلدحل نیز ان کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت کوشش کرنے کی غرض سے1990میں ’’نیشنل کمیشن برائے خواتین‘‘ کے ساتھ صوبائی سطح پر ’’صوبائی کمیشن برائے خواتین‘‘ کا قیام کرنا ہے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین پاس ہونے نیز پرانے قوانین میں ترمیم کرکے سخت تجاویز شامل کرنے میں نیشنل کمیشن برائے خواتین کی کوششوں و کاوشوں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ دستور ہند کی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے ارتقا کے لیے متعدد دیگر پالیسیوں کا بھی تعارف ممکن ہوا جن میں قانون برائے یکساں اجرت(Equal Remuneration Act)، غیر اخلاقی اور جسمانی کاروبار میں استعمال کرنے کے لیے غریب و مجبور لڑکیوں کو نوکری یا شادی کا جھانسہ دے کر شہروں میں لے جاکر فروخت کردیا جاتا ہے، ایسی کسی بھی انسانی تجارت کو غیر قانونی تسلیم کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے قانون(The Prevention of Immoral Traffic Act)کا پاس ہونا، ہمارے سماج میں جہیز کی مانگ ایک سماجی لعنت ہی نہیں بلکہ نظام قانون کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے مخصوص قانون بنام ’’جہیز مانع قانون‘‘ بنایا گیا۔ دستور ہند میں خواتین کو دیے گئے بنیادی حقوق نیز یکساں مواقع بڑے اور بنیادی چیلنجز میں شمار ہوتے ہیں۔
خواتین کی مجموعی ارتقا کے لیے مساوی حقوق کا دستیاب ہونا ضروری ہے، خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا، مسلمانوں میں اگرچہ عملی طور پر وراثت میں خواتین کی حصہ داری میں عمومی طور پر کوتاہی نظر آتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وراثت دینے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں، اس کے برخلاف دیگر مذاہب میں خواتین کو وراثت کا حقدار تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ ایک طویل جدوجہد اور بحث و مباحثے کے بعد ہمارے ملک کی پارلیمنٹ نے وراثت کا قانون پاس کیا جس کے بعد وراثت میں خواتین کو دستوری و قانونی طور پر مساوی حق حاصل ہوا۔
جہیز کی لالچ میں خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی نیز ان کا قتل سماج اور ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے، یہ ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جس کو روکنے میں نہ صرف سماج بلکہ ہمارا نظام قانون بھی پوری طرح ناکام ہوتا محسوس ہورہاہے، اگر ہم جہیز کے لیے ہونے والی اموات کے سرکاری اعدادوشمار دیکھیں تو یہ چونکادینے والے ہیں، نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے اعداد وشمار کے مطابق صرف سال 2012 میں کل8233خواتین جہیز کی مانگ کے چلتے اذیت کے سبب موت کا شکار ہوگئی تھیں۔ وہیں2001تک جہیز کے لیے ہونے والی روزانہ کی19اموات کا ڈاٹا2016 میں بڑھ کر21اموات روزانہ تک پہنچ گیا ہے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق صرف سال2019میں 7100 خواتین جہیز کے لیے موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ اس کی دو اہم وجوہات ہوسکتی ہیں، پہلی یہ کہ انڈین پینل کوڈ میں موجود دفعہ498Aکا صحیح استعمال نہ ہونا نیز دوسرا جہیز مانع(روک تھام) قانون میں موجود تجاویز پر حکومتوں و عدالتوں کا عمل درآمد کرانے میں ناکام ہونا، مثلاً جہیز روک تھام کے لیے مخصوص آفیسر کا موجود نہ ہونا جس کے سبب جہیز کی مانگ کو لے کر ہونے والی شکایات کا ریکارڈ نیز مستقل نگاہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات ہمارے سماج کے لیے ایک عام سا معمول بن گئے ہیں، معمولی باتوں یا کسی بھی وجہ سے خواتین خصوصاً بیوی کے ساتھ مارپیٹ خصوصاً خواتین کی عزت نفس نیز ان کے انسانی حقوق کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے، انڈین پینل کوڈ میں متعدد دفعات موجود ہونے کے باوجود مزید تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے2005میں پارلیمنٹ نے ’’پروٹیکشن آف وومن فرام ڈومیسٹک وائلنس ایکٹ2005‘‘(Protection of Women from Domestic Violence Act,2005)پاس کیا، جس کا واحد مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن اس قانون کو پاس ہونے کے تقریباً16 سال کے بعد بھی خواتین کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد کے واقعات میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ کام کرنے کی جگہ مثلاً آفس، کارخانہ، ورکشاپ جیسی جگہوں پر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا نے1997میں وشاکھا فیصلے میں رہنما اصول وضع کیے، یہ رہنما اصول وشاکھا گائیڈ لائنس کے نام سے موسوم ہیں۔ امید تھی کہ ان رہنما اصولوں کے بعد ورک پلیس پر خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر قابو پایا جاسکے گا لیکن کوئی خاطرخواہ تبدیلی نہ ہونے کی صورت میں کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے2010میں ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جس کا نامSexual Harassment of Women at Workplace )Prevention, Prohibition and Redressal Bill 2013 )ہے، جو کہ 9دسمبر 2013 میں صدرجمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کرتا ہے۔
شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو شوہر کی چتا کے ساتھ آگ کے حوالے کردیا جاتا تھا، یہ رسم آزادی کے بعد بھی جاری تھی، اگرچہ انگریزوں نے اپنے دوراقتدار میں اس رسم کو ختم کرنے کی کوششیں کیں تاہم یہ رسم ختم نہیں ہوسکی تھی۔ آزادی کے بعد1987میں ستی جیسی غیر انسانی رسم کو پوری طرح ختم کرنے کی غرض سےCommission of Sati (Prevention) Act, 1987 بنا، اس قانون کے بعد ستی کی رسم ہمارے ملک سے تقریباً پوری طرح ختم ہوگئی۔
رحم مادر میں لڑکیوں کا قتل ایک پرانا رواج رہا ہے، لڑکیوں کو ہمارے ملک میں بدشگون سمجھاجاتا رہاہے، لڑکوں کو ہمیشہ سے لڑکیوں پر فوقیت دی گئی ہے، حتیٰ کہ لڑکوں کے پیدا ہونے پر خوشی منائی جاتی ہے جب کہ لڑکی کے پیدا ہونے پر اس کی ماں کو ستانا اور تشدد کا نشانہ بنانا عام رواج رہاہے، ہمارے ملک میں میڈیکل ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے حمل کے دوران ہی ماں کے پیٹ میں ہی لڑکیوں کا قتل کردیا جاتا تھا، کہیں اسقاط حمل کے ذریعہ تو کہیں دوسرے طریقے رائج تھے، اس رواج کی وجہ سے جنسی تناسب بھی بگڑ رہاتھا، چنانچہ لڑکیوں کو دوران حمل ختم کرنے کے سماجی مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ہمارے ملک میں 1971 میںMedical Termination of Pregnancy Act کا قانون پاس کیا گیا اور پھر1994 میں Pre-Coception and Pre-Natal Diagnostic Techniques (Prohibition of Sex Selection) Act,1994 پاس کرکے جنسی تفریق کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب ہر ہاسپٹل میں نوٹس بورڈ پر جلی حروف میں آویزاں ہوتا ہے کہ ’’ہمارے ہاسپٹل میں دوران حمل پیٹ میں لڑکا یا لڑکی ہونا نہیں بتایا جاسکتا ہے، یہ غیر قانونی ہے۔‘‘اس جرم کی سزا تین سال سے لے کر عمر قید تک کی تجویز کی گئی ہے کیونکہ پیٹ میں لڑکی کو مارنا قتل کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
لڑکیوں کی غیر قانونی تجارت یا ٹریفکنگ، ناخواندگی، کم عمری میں شادی، خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اہم چیلنجز رہے ہیں۔
مسلمانوں کے خواندگی مسائل مثلاً شادی، طلاق، وراثت، نان نفقہ جیسے اہم ایشوز دستوری طور پر مسلم پرسنل لاء کے تحت زیر غور ہوتے ہیں، تاہم مسلم خواتین کے حق و انصاف کے نام پر کچھ غلط رسم و رواج کے پیدا و مروج ہونے کی بنیاد پر مسلم خواتین کو لے کر بھی دستوری و قانونی شقات کا اضافہ ہوا ہے مثلاً مسلم عورت کی طلاق اور اس کے بعد ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے پہلے1939 میں آزادی سے پہلے انگریز دور حکومت میں Disintegration of Muslim Marriage Act, 1939 پاس ہوا، لیکن آزادی کے بعد1986 میں Muslim Women (Protection of Rights on Divorce) Act, 1986 پاس ہوا، حالیہ دنوں میں تین طلاق کو لے کر پارلیمنٹ نے جو قانونThe Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Act, 2019 پاس کیا ہے، اس کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی کہا جاسکتا ہے۔ مسلم خواتین اور طلاق سے متعلق قوانین کی دستوری حیثیت یا مسلم پرسنل لاء سے دستوری ٹکراؤ یقینا ایک اہم بحث ہے، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سماج میں پھیلے ہوئے غلط رسم و رواج سے پیدا ہوئے حالات سے مجبور ہوکر کچھ مسلم خواتین بھی فیمنسٹ تحریکوں کا حصہ بن کر ان قوانین کی مانگ اٹھارہی تھیں۔
ہمارے ملک میں طلاق کے بعد نان نفقہ کا مسئلہ بہت اہم ہوتا ہے، ہمارے ملک میں نافذ کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعات 125 سے 128تک نان نفقہ سے متعلق ہیں۔ ہمارے ملک کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین ان دفعات کے تحت ہی عدالت سے نان و نفقہ کی مانگ کرسکتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں آج بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں، سماج میں خواتین کو ان کا دستوری یا انسانی درجہ کما حقہ میسر نہیں ہے، نہ تو ہمارے ملک کے قوانین ان کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوسکے ہیں اور نہ ہی ان کو ان کا حق دستیاب کرنے میں کامیاب ہیں۔
[email protected]