ویج + نان ویج= ہندوستان

0

دنیا کے سب سے بڑے سیکولر اور جمہوری ملک ہندوستان کے تعلیمی اداروںمیں بھی مذہبی منافرت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ طلبادو حصوں میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہورہے ہیں۔اس کی تازہ مثال جواہر لعل نہرویونیورسٹی(جے این یو ) ہے، جہاںہندو احیاپرست تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد(اے بی وی پی)کے کارکنان نان ویجیٹرین کھانے کو ایشو بناکر طلبا پر حملہ آور ہوگئے ۔اے بی وی پی کے طلبا کا کہنا ہے کہ وہ رام نومی کی پوجا کررہے تھے لیکن بائیں بازو سے وابستہ طلبا نے انہیں روک دیا جب کہ بائیں باز کے طلبا کا کہنا ہے کہ اے بی وی پی کے طلبا کاویری ہاسٹل کی میس میں نان ویجیٹیرین کھانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
رام نومی کے موقع پر یوں تو ہر سال ہی کہیں نہ کہیں تشدد کے واقعات ہوتے ہیں،اس سال بھی کئی مقامات پر ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں شر پسندوں کی ٹولیوں نے ہنگامہ اور نعرے بازی کرتے ہوئے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا اور مسجد کے میناروں پر بھگوا جھنڈا لہرایا ہے۔ مغربی بنگال کے ہوڑہ اور بانکوڑہ میں بھی پرتشدد واقعات ہوئے جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ اسی طرح بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گجرات اور دوسری ریاستوں سے بھی اس سال رام نومی کے موقع پر تشدد کی خبریں آئی ہیں۔لیکن جے این یو میں ہونے والا واقعہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ ویج اور نان ویج کھانے کے ایشو پر ہوا۔ جے این یو کے مختلف ہاسٹلز کے میس میںہفتہ میں چار دن نان ویجیٹرین کھانا دیاجاتا ہے۔ اتوار کو خاص طور پر چکن کا اہتمام کیاجاتا ہے۔مینومیں ویج اور نان ویج دونوں طرح کا کھانا ہوتا ہے لیکن طلبا کوپھر بھی ان کی پسند کا کھانا کھانے سے روکا گیا جس کی وجہ سے شروع ہونے والا تنازع پرتشدد رخ اختیار کرگیااور کئی طلبا زخمی ہوگئے۔ مرکزی حکومت نے یونیورسٹی سے واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے اور پولیس نے کئی طلبا کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ جن طلبا کا نام پولیس ریکارڈ پر آچکا ہے، ان کا مستقبل کیاہوگا اس کے بار ے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے لیکن یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں میں کھانے کے معاملے پر ہونے والے تنازعات اور اس طرح کے ماحول کو ختم نہیں کیاگیاتو یہ ضرور کہاجاسکتا ہے کہ ملک کا مستقبل اندھیرے میں ڈوبنے سے کوئی نہیں بچاسکتا ہے۔خوردو نوش، اکل و شرب، لباس و پوشش انسان کا اپنا انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے۔ تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے ہرا نسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کا کھانا کھائے، اپنی پسند کا لباس پہنے اورا پنی پسند کا مذہب اختیار کرے۔ اس معاملہ میں کسی دوسرے کی دخل اندازی اور جبراً روک لگانا انسان کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ انسان کی اپنی اس پسند پر نہ تو کوئی ریاست روک لگاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی قانون یا عدالت انسانی پسند و ناپسند کے فیصلہ پر حکم صادر کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
لیکن ہندوستان جنت نشان میں ان دنوں سب کچھ الٹ ہورہا ہے۔آئین میں دی گئی شہریوں کی آزادی کی ضمانت کو حکومت اپنے احکامات کی زنجیرڈال رہی ہے۔طاقت کا استعمال کرتے ہوئے حکومت شہریوں پرا پنی مرضی مسلط کررہی ہے۔یہ ڈکٹیٹ کیا جا رہا ہے کہ کسے کیاکھانا ہے اور کیا پہننا ہے۔ نوراتری اور رام نومی پہلے بھی ہواکرتے تھے، ہون اور جلوس پہلے بھی نکلاکرتے تھے لیکن کسی کے کھانے پینے کے معاملہ کو اس سے نہیں جوڑاجاتاتھامگر اب نوراتری کے آغاز سے قبل ہی اترپردیش اور دیگر کئی ریاستوں نے اپنے اپنے یہاں نان ویج کی خرید وفروخت پر پابندی لگادی اور نوراتری کے بہانے مفسدوں کیلئے شرانگیزی کی راہ کھول دی گئی۔ملک کے کئی مقامات پر مسلم اکثریتی علاقوں میں مسجدوں کے سامنے سے عین اذان اور نماز کے وقت پر جلوس نکالے گئے، دوسرے مذاہب کی توہین کرتے ہوئے فحش اورا شتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔ یہ سب کچھ انتہائی منظم طریقے سے اور سوچ سمجھ کیاگیا۔جے این یو میں بھی یہی کچھ ہوا،رام نومی کے دن ’ہون‘ ختم ہونے کے بعد اے بی وی پی کے شرپسندوں کا گروہ کاویری ہاسٹل میں روزہ افطار کے وقت طلبا پر حملہ آور ہوا اور یونیورسٹی کے پرسکون تعلیمی ماحول میں مذہبی منافرت کا گند گھول گیا۔
ہندو احیا پرستی کے نام پرآر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیمیں تعلیمی اداروں میں جوحالات پیدا کررہی ہیں، ان کے خطرناک نتائج پورے ملک کو بھگتنے ہوں گے۔ویسے بھی یہ تنظیمیں اوران کی سیاسی جماعتیں صرف اپنے انتخابی فائدے کیلئے ملک میں آزادی سے پہلے جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ہندوستان جتنا ویج کھانے والوں کا ہے اتنا ہی نان ویج کھانے والوں کابھی ہے۔ویج اور نان ویج کے نام پر ملک کوتقسیم کرنے کی اس مذموم کوشش کو روکنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS