عبیداللّٰہ ناصر
پاکستانی سپریم کورٹ نے ایک بار پھر اپنی حیثیت منوا لی، اس بار اس نے نہ صرف وزیراعظم بلکہ صدر مملکت اور قومی اسمبلی کے ا سپیکر کو بھی بتا دیا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی صحیح سلامت ہے۔اس نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلہ اور وسط مدت الیکشن کرانے کے صدر مملکت کے فیصلہ کو مسترد کر دیا اور وزیر اعظم کو حکم دیا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں۔ حالانکہ اس تحریک کا انجام سب کو معلوم تھا کہ عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی کے زیادہ تر ارکان ان کے مخالف ہوچکے تھے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلس پارٹی جیسے ازلی دشمن متحد ہوگئے ہیں، شہباز شریف نئے وزیراعظم ہیں مگر کیا یہ بے میل اتحاد جس کی بنیاد صرف عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا تھا، اگلے مہینوں تک جب موجودہ قومی اسمبلی کی مدت ختم ہوگی متحد رہ پائے گا؟ کوئی سیاسی تجزیہ نگار کوئی لال بجھکڑ یہ ماننے کو تیار نہیں لگا یعنی وسط مدتی الیکشن ہر حال میں ہوں گے۔ کب اور کس انداز میں ہوں گے، یہ فی الحال نہیں کہا جاسکتا۔
پاکستان کی سیاست کو سمجھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حکومت بھی تب تک چلے گی جب تک فوج چا ہے گی کیونکہ پاکستان میں اصل حکومت ساز تو نہ وہاں کے عوام ہیں اور نہ ہی ان کے نمائندے، اقتدار کی کنجی فوج کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے اور جب جب کسی وزیراعظم نے فوج پر اپنی گرفت دکھانے کی کوشش کی، اس کو ذلیل اور رسوا ہوکر اقتدار سے محروم ہونا پڑا بلکہ بھٹو کو تو پھانسی کے تختہ پر بھی چڑھا دیا گیا تھا۔ عمران خان کے اس سیاسی زوال کے پس پشت بھی فوج سے ان کا ٹکراؤ ہی ہے۔
یہاں مرحوم بھٹو سے متعلق ایک چشم کشا، عبرت ناک اور دلچسپ واقعہ کا ذکر وہاں کی فوج کی ایوان اقتدار پر گرفت کو بہتر طریقہ سے سمجھنے میں معاون ہوگا۔بھٹو کے گھر پر ان کے ایک بے تکلف دوست نے فون کیا اور کچھ سیاسی گفتگو شروع کی تو بھٹو صاحب ہوں ہاں کرتے رہے، دوست کو بہت برا لگا اور اس نے فون کاٹ دیا، شام کو جب دونوں ملے تو بھٹو نے کہا تم مجھے مرواؤگے کیا؟ تم کو پتہ نہیں کہ فوج میرا فون ٹیپ کراتی ہے۔ یہ اس فوج کی اس وقت کی دیدہ دلیری کا واقعہ ہے جو ہندوستان کے ہاتھوں ذلیل ہو چکی تھی پھر بھی اقتدار پر اس کی بالواسطہ گرفت جوں کی توں تھی۔ پاکستان کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالانکہ عمران خان کو اقتدار میں لانے میں فوج نے اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ تب اس کی نواز شریف سے پٹری نہیں کھا رہی تھی لیکن گزشتہ ایک سال سے فوج اور عمران خان کے درمیان اختلافات بہت بڑھ گئے تھے، یہاں تک کہ وہاں پھر فوجی تختہ پلٹ کی سگبگاہٹ سنائی دینے لگی تھی لیکن فوج کو یہ بھی اندازہ تھا کہ پا کستانی عوام شاید فوج کا براہ راست اقتدار برداشت نہیں کریں گے خاص کر وہاں کے نوجوان جمہوریت حقوق انسانی وغیرہ کے سلسلہ میں خاصہ حساس ہوگئے ہیں، اس لیے فوج خون کا گھونٹ پیتی رہی اور حزب اختلاف کو عمران خان کے خلاف ایک محاذ پر لا کر اور عمران خان کی پارٹی میں پھوٹ ڈلوا کر اس نے اپنا منصوبہ پورا کر لیا کیونکہ عمران خان کی پارٹی کے بہت سے ارکان پارلیمنٹ فوج کی مدد سے ہی کامیاب ہوئے تھے اور ان کی وفاداری اپنی پارٹی اور لیڈر سے زیادہ فوج سے تھی۔ ابتدائی دور میں خود عمران خان بھی فوج کے اشارہ پر ہی کام کرتے رہے اور دونوں میں اچھا تال میل رہا لیکن دھیرے دھیرے عمران خان نے بھی اپنی طاقت اور اختیار دکھانا شروع کیا جس کا آغاز فوج کے سربراہ جنرل جاوید قمر باجوہ کی مدت کار میں توسیع میں ان کی آناکانی سے ہوا، یہی نہیں انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر بنا کر پشاور بھیج دیا، وہ انہیں جنرل صاحب کو جنرل باجوہ کی جگہ فوج کا سربراہ بنانا چاہتے تھے۔ اس طرح فوج کی اور کئی تقرریوں کو لے کر بھی فوج اور وزیراعظم میں ٹھنی رہی اور عمران جنرل باجوہ کو سبکدوش کرنے کی ہمت نہیں کرسکے لیکن دونوں کے اختلاف اب کھل کر سامنے آنے لگے۔ روس اور یوکرین کے معاملہ میں بھی دونوں کا رویہ بعد المشرقین تھا۔ عمران کا جھکاؤ روس کی طرف تھا، امریکہ یہ برداشت نہیں کر سکا اور اس نے پھر اپنا گھناؤنا کھیل شروع کیا۔ جنرل باجوہ اور حزب اختلاف پر امریکہ کے دباؤ کا ثبوت بھی عمران خان نے پیش کیا۔ جنرل باجوہ نے عوام کا جذباتی استحصال کرتے ہوئے کشمیر کا راگ الاپنا شروع کر دیا، جواب میں عمران خان سے ہندوستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی تعریف کی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی فوج کے دباؤ میں آیا ہے۔
ایک بات یہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ جب ایوان میں تحریک عدم اعتماد منظور ہوچکی تھی تو اس پر بحث اور ووٹنگ کرانے کے بجائے ڈپٹی اسپیکر نے ایوان کو تحلیل کرنے کی وزیراعظم کی سفارش کیوں منظور کرلی لیکن وسط مدتی الیکشن کرانے کی کابینہ کی سفارش کو صدر مملکت کے ذریعہ قبول کیا جانا بھی عدالت کی نظر میں غیر آئینی کیسے ہوگیا یہ سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ صدر مملکت کابینہ کے فیصلہ کو منظور کرنے کو مجبور ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اسے پہلی بار نظر ثانی کے لیے کابینہ کو واپس بھیج دیتے لیکن یہی سب تو سیاست کے کھیل ہیں جس میں عمران خان نو بال ہو گئے۔ بہرحال پاکستان کے سپریم کورٹ نے ایک آئینی بحران کا آئینی حل نکال کر وہاں جمہوریت کو مضبوط ہی کیا ہے حالانکہ جب تک پاکستان میں فوج کو آئین اور پارلیمنٹ کے سامنے بے دست و پا نہیں کیا جائے گا وہاں اقتدار کا یہ کھیل چلتا ہی رہے گا۔
پاکستان کے حالیہ سیاسی ڈرامہ کے سلسلہ میں خاصے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں جس سے اس پرانے مقولہ کی صداقت پھر ثابت ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو اے یعنی اللہ پاک، امریکہ اور آرمی چلاتے ہیں، باقی وہ ایک ناکام ریاست ہی ہے۔ سبکدوش افسر اور ممتاز صحافی پرمود پہوا جو سفارتی امور خاص کر پاکستان کے معاملات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں، انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان بدھ تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ٹالنا چاہتے تھے کیونکہ منگل کو ممکنہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف پر بدعنوانی کی فرد جرم عائد ہونے والی تھی لیکن رات ساڑھے نو بجے کابینہ کی ہنگامی میٹنگ طلب کی جاتی ہے، اسی دوران وزیراعظم کی رہائش گاہ اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پولیس قیدیوں کو لے جانے والی گاڑی کے ساتھ ڈیرہ ڈال دیتی ہے۔ پنڈی سے فرنٹیئر فورس بھی اسلام آ باد پہنچ جاتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے بھی خود سپردگی کر دی یعنی فوج نے تختہ پلٹ کا اشارہ دے کر عمران خان کو خود سپردگی پر مجبور کر دیا۔ یہی نہیں سپریم کورٹ نے عمران خان کی نظر ثانی کی درخواست بھی تکنیکی بنیاد پر خارج کر دی اور جو افسر شہباز شریف کے خلاف فرد جرم تیار کر رہا تھا، اسے لمبی چھٹی پر بھیج دیا گیا یعنی پاکستان میں جوبھی ہوا وہ سب ایک تیار اسکرپٹ کے مطابق ہے جو امریکہ میں تیاری کی گئی، فوج نے مکمل کرائی اور باقی سیاسی پارٹیاں مہرہ ہی بنی رہیں ۔
لیکن ہم اپنی سابقہ بات پھر دوہراتے ہیں کہ وسط مدتی الیکشن ہی پاکستان میں سیاسی استحکام لاسکتے ہیں کیونکہ موجودہ پارلیمنٹ کی بحالی کے بعد جو حکومت بنے گی، اس کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوگا، یہ صرف سیاسی مفاد کا اکٹھا ہونا ہے، اس کا واحد مقصد اقتدار ہے اور اس کے لیے وہ فوج کے اشارہ پر ہی ناچتی رہے گی اور اسی وقت تک یہ پارٹیاں متحد رہیں گی جب تک فوج چاہے گی۔ ایک غیر مستحکم پاکستان ہندوستان کے لیے شدید خطرہ رہے گا۔ جنرل باجوہ کشمیر کا راگ الاپ ہی چکے ہیں، چین اور امریکہ بھی کشمیر کے معاملات میں دلچسپی لے سکتے ہیں، وہاں حقوق انسانی کی پامالی پر عالمی برادری پہلے سے ہی شک و شبہ میں مبتلا ہے پاکستان اسے اور ہوا دے سکتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ ہندوستان سفارتکاری کے میدان میں ہی سرگرم نہ ہو بلکہ کشمیر میں بھی حالات معمول پر لانے کی ایماندارانہ کوشش شروع کرے۔
پاکستان میں نئی حکومت کی کار کردگی پر نظر رکھنا ضروری ہے، ہو سکتا ہے نئی حکومت ملک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خود ہی وسط مدتی الیکشن کا فیصلہ کرلے کیونکہ گرانی، بیرونی قرض، بے روزگاری جیسے سنگین مسائل اس کے سامنے منہ پھیلائے کھڑے ہیں۔ عمران خان چند مہینوں بعد ہی ان مسائل کو لے کر عوامی تحریک شروع کر سکتے ہیں کیونکہ عوام اپنی مشکلات کے لیے موجودہ حکومت کو ہی ذمہ دار گردانیں گے۔ سابقہ حکومتوں کو نہیں دوسرے عوام کو یہ احساس تو ہے ہی کہ موجودہ سیاسی گٹھ جوڑ، سیاسی طالع آزمائی، اقتدار کی حوس اور فوج کے اشارہ پر بنا غیر اخلاقی گٹھ جوڑ ہے جس کے پاس سیاسی قوت بھلے آ گئی ہے لیکن اخلاقی قوت کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ پیپلس پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کی بنیادی طور سے فوج سے پٹری نہیں کھاتی، فوج ان کو بھی استعمال کر کے باہر کا راستہ دکھا سکتی ہے اگر موجودہ حکومت برسراقتدار رہی توملک زبردست سیاسی تحریک، ہنگامہ آرائی، انتظامیہ کی سختی اور نراج جیسے ماحول میں پھنس جائے گا، اس لیے بہتر ہوگا کہ جلد از جلد وسط مدتی الیکشن کرا کے وہاں ایک مستحکم حکو مت قائم ہو جو پاکستان کے بھی مفاد میں ہے اور خطہ کے امن و استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]