اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو!

0

عبدالسلام عاصم

ملک کے حالات کے پیش نظر ہمارے قومی حکمرانوں، سماجی ذمہ داروں اور مذہبی رہنماؤں کا رُخ کسی محاسبے سے زیادہ اُن مفادات کی طرف ہے جس کے تحفظ کی سیاست نے ہی موجودہ حالات پیدا کیے ہیں۔ اس لحاظ سے دُشینت کمار کا یہ مصرع مشترکہ کاوشوں سے مرتب ہماری تہذیبی اور سیاسی زندگی کی دوٹوک آئینہ داری کرتا ہے کہ ’’اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو۔۔۔‘‘۔ بلا تفریقِ مذہب و ملت ملک داخلی بحران کا شکار ہے۔قومی ذمہ داران کی عصری سیاست کی حالت واقعی اُس تالاب کی جیسی ہوگئی جس میں کنول کے پھول مرجھانے لگے ہیں۔دوسری جانب مسلمانوں کو تو جیسے پوری دنیا سے شکایت پیدا ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب کسی کو سب سے شکایت پیدا ہو جائے تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ اب اُسے نظر اتروانے کی جگہ آئینہ خانے میں جا کر از خود اپنے احوال بالخصوص اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
بصورت دیگر شاطر معالجین آپ کی تکلیف کی حقیقی تشخیص کرنے کے بجائے آپ کا ذہن پڑھتے رہیں گے اور اسی مناسبت سے اشتہاری دوائیں تجویز کرتے رہیں گے۔ نزاعی عارضوں کا علاج کرنے والے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوںکے مریضوںسے اسی طرح پیش آتے ہیں۔ایسا نہیں کہ دوسری اقوام آزمائش کے اس مرحلے سے نہیں گزریں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر عہد کو آگے چل کر متاثر کرنے اور راہ دکھانے والی سبھی قوموں کوایسی تجربہ گاہوں سے گزرنا پڑا ہے۔البتہ مغربی اقوام اور دوسری موجودہ ترقی یافتہ قوموں کی آزمائشوں کا دور آج کے مقابلے میں زیادہ مشکلات اور جد وجہد سے بھرا تھا۔اُن کا زمانہ نہ تو گلوبلائز تھا اور نہ ہی اُن کیلئے اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل انقلاب نے سب کچھ اتنا آسان کر دیا تھا، جتنا ہمیں میسر ہے۔
اس طرح دیکھا جائے توہندوستان کی دونوں نمایاں ملتوں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کو جن آزمائشوں کا سامنا ہے، اُن سے جلد بدیر کامیاب گزرنے کے لیے موجودہ عہدماضی کے بر عکس زیادہ سازگار ہے۔پہلے غلط اور صحیح کی تصدیق میں بہت وقت ضائع ہوتا تھا۔تکنالوجیائی ترقی اورگلوبلائزیشن کی برکت سے حالیہ دہائیوں میں زمانے کی رفتار کو وہ مہمیز لگی ہے کہ اب لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں پر محیط نہیں ہوتی۔بہ الفاظ دیگر موجودہ منظر نامہ دہائیوں میں بدل سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کی جڑیں اب بہت گہری ہوچکی ہیں۔آمرانہ اور تسلط پسند ذہنیت کی جارحانہ اور دفاعی چالیں جلد الٹی پڑجاتی ہیں۔ اس کی تازہ نظیر اسی ہفتے پاکستان نے پیش کر دی ہے۔ ہر چند کہ ابھی سب کچھ نہیں بدلا لیکن اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ جمہوری تہذیب میں عوام کے جذبات سے کھیلنے والے کسی فیصلے پرجو نظم قائم کیا جاتا ہے، اُس کو اب استقلال حاصل نہیں ہوتا۔ باوجودیکہ محدود نظریات والے حلقے آج بھی اپنی محدود سوچ کی دیواریں اور اونچی کرنے کا فائدہ اٹھانے میں ہی مصروف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ درونِ ملک قومی سیاست کا رُخ آزمائشوں کی طرف ہے۔تقسیمِ ہند کی بنیاد کو چیلنج کرنے والی ہماری جمہوریت کی باگ ڈوراِس وقت جن ہاتھوں میں ہے اُن کی سماجی گرفت عام لوگوں کو تحفظ کم اور گھٹن کا سامان زیادہ بہم پہنچا رہی ہے۔ اقتدار کے لیے تما م تر جمہوری سیاسی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا گیاہے۔ایسے میں اس سے پہلے کہ کنول کے پھول مرجھانے لگیں بی جے پی قیادت کو قومی تالاب کا پانی بدل دینا چاہیے۔ بصورت دیگر حکومت اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے درمیان بے اعتمادی کا جو ماحول پیداہواہے، اسے انتخابی سیاست کے ذریعہ د ور نہیں کیا جا سکے گا۔ معاشرتی سائنس دانوں کو اِس معاملے سے پہلی فرصت میں رجوع کرنا چاہیے اوراِسے بہر طور ختم کرنے پر وقت صرف کرنا چاہیے۔موجودہ سیاسی منظرنامہ تادیر درست نہیں کیا گیا توہمارے مربوط قومی نظریہ کو بھی اُسی طرح نقصان پہنچ سکتا ہے جس طرح کے نقصان سے دو قومی نظریہ کی پیداوار پاکستان مسلسل دوچار چلا آ رہا ہے۔ آزادی کے بعد تقسیم کا زخم ہمارے یہاں ایک حد تک بھرنے لگا تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے تو یکسر غلط نہیں ہوگا کہ اس میں 1971 کے بعد بہ انداز دیگر تیزی بھی آئی تھی۔ اُسے پھر سے کریدنے کی داخلی اور بیرونی دونوں قسم کی سازشوں کو ناکام بنانے میں ہماری ناکامی درونِ وطن دونوں فرقوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
حجاب، حلال و حرام، اذان، مبینہ کاروباری جہاد اور دیگر عنوانات سے حالیہ مہینوں میں ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کے حوالے سے پیش آنے والے بعض واقعات سے نمٹنے کی دونوں طرف کی اشتہاری قیادتوں کی جانب سے جو کوششیں کی جا رہی ہیں، اُن سے قومی یکجہتی کے کاز کو آگے بڑھانے میں بظاہر کوئی مدد ملتی نظر نہیں آتی۔کسی بھی غیر صحتمند رویے کا بس عاجلانہ اور ردعمل پسندانہ جواب دیا جا رہا ہے۔ اگراسی سلسلے کو آگے بڑھایا جاتا رہا تو بات بننے کے بجائے اور بگڑسکتی ہے۔ ایسے میں ہنگامی ضرورت اس بات کی ہے کہ بین مذاہب مختلف الخیال لوگ ایک دوسرے سے سرگرم اشتراک کریں اور دونوں ملتوں کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔یہ کام کرنے کے لیے کسی اعلان کی ضرورت نہیں،بس ارادہ کافی ہے۔ اس طرح جو مفاہمت پیدا ہوتی ہے اس کا دائرہ فطری طور پر تیزی سے وسیع ہوتا ہے۔ اس کی زبان کی سطح پر ایک مثال ’’اردو‘‘ بھی ہے۔جس کی صحافت کے دو سو برس پورے ہونے کا ملک بھر میں جشن منایا جارہا ہے۔ نئی نسل میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ اردو کی پیدائش کے مر حلے میں خواص کے ایک رعونت سے آلودہ حلقے نے اسے بازاری زبان قرار دے دیا تھا۔زبان سے محبت کرنے اور لسانی اختلاط کے مثبت پہلوؤں پر یقین رکھنے والوں نے اگراردو کے ایسے مخالفین کو زیادہ منھ لگا یا ہوتا تو نتیجہ خوشگوار ہر گز نہیں ہوتا اور ایک انتہائی خوبصورت زبان کا وجود میں آنے سے پہلے اسقاط ہو گیا ہوتا۔
ملک کے حالات اگر آج بھی ہماری قومی زندگی کے حق میں پوری طرح سازگار نہیں تو اس کے ذمہ دار صرف باہری مداخلت کار نہیں۔ ہم بھی کہیں جانے انجانے میں اس مداخلت کے زیر اثر آجانے والوں سے معاملات کرنے میں کمزور پڑ رہے ہیں۔اختلاف رائے رکھنے اور کسی بات کو دو ٹوک مسترد کرنے میں ایک حساس لیکن نمایاں فرق ہے۔ اِس فرق کو جب تک سمجھا نہیںجائے گا تب تک قوم پرستی، حب الوطنی اور گنگا جمنی تہذیب کی پاس داری کی بے ہنگم گردان ہمیں کسی منزل سے آشنا نہیں کر پائے گی۔ ہمیں اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سیکولر ہندوستان میں آج بھی اقلیتوں،اکثریتوں اور درج فہرست ذاتوں کے حوالے سے وہ باتیں کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ماضی میں دو قومی نظریے کے تاجروں کو تقویت ملی تھی۔
سیکولرزم کو ہمسائے نے لادینیت کے نام سے پہلے تو لاحاصل طور پر مطعون کیا اور پھر ’’ایک دین‘‘ پر خود ہی لسانی عصبیت کو ترجیح دی۔ اب علاقائی شناخت کے جھگڑے میں اُلجھے ہیں۔اس کے برعکس ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے سیکولرزم سے باہمی مذہبی احترام کا مفہوم نکا لا گیا تھا۔اس کوشش کوابتدائی کامیابی بھی ملی مگراُس رُخ پر جاگنے والے منزل تک پہنچنے سے پہلے سونے لگے۔اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ کسی نے یہ سوچا ہی نہیں کہ مذہبی سخت گیریت پر قابو نہیں پایا گیا تو سیکولرزم کی نئی تشریح’’ہمہ دینیت‘‘ بھی آگے چل کر الجھ سکتی ہے۔ افسوس ہم نے اُس اَن دیکھے دشمن سے نجات حاصل نہیں کی جو ہمارے ہی اندر موجود ہ تھا اور آج پہلے سے زیادہ توانا ہے۔ نظر نہ آنے والے اس دشمن سے مقابلے کی بہتر صورت یہ ہے بین مذاہب فاصلے سے عبارت موجودہ ماحول کو یکسر بدلنے پر عملی توانائی صرف کی جائے جو ایسے دشمن کے لیے انتہائی ساز گار ہے۔بہ الفاظ دیگر رنگ اور نسل، ذات اور مذہب پر انسان کی برتری کا یقین عام کرنے میں اہلِ مذاہب کا اس بنیاد پر اشتراک حاصل کیا جائے کہ خدا نے کائنات کی تخلیق کا مقصد بیان کرنے میں انسانوں سے خطاب کیا ہے، کسی فرقے یا صنف سے نہیں۔اگر ہم اس شعور کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دشمن سے از خود نجات حاصل کرنے کے متحمل ہو جائیں گے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS