عالمی سیاست اور سفارتی تعلقات کسی بھی ایک رویہ اور اصولوں سے طے نہیں ہوتے،یوکرین اور روس کا حملہ سفاکانہ اور توسیع پسندانہ روش کا مظہر ہے ، جس کو مہذب دنیا میںمنظوری نہیں دی جاسکتی ہے۔ مگر یوروپ میں ہونے والے ان واقعات کے پس پشت ایک طرف علاقائی اور جغرافیائی بالادستی کی کشمکش کا اہم رول ہے تو دوسری طرف توانائی کو لے کر اختلافات اور مفادات کا ٹکرائو بھی ہے۔ہندوستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے۔ ہماری معیشت بڑی ہے اور ہمیں صنعتی اور دیگر سرگرمیوں کے لئے توانائی وافرمقدار میں درکار ہے۔ہندوستان نے اپنی دشواریوں اور مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے روس سے کچے تیل کی خریداری نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں دیگر ملکوں کے مقابلے میں روس سے زیادہ کم قیمت پر پٹرول وغیرہ مل رہاہے۔ اگرچہ مغربی طاقتوں نے روس کے ساتھ تجارت کوہماری اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ہندوستان کی اپنی دشواریاں ہیں اور ایسے سخت حالات میں جب تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان چھوری ہیں، ہمیں قدرکم قیمت پر کچا تیل مل رہاہے۔ظاہر ہے کہ اگر ہم مغربی ممالک کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے روس سے تیل نہیں خریدیں گے تو ہمارے لئے کافی دشواریاں پیدا ہوجائیں گی۔یوکرین کے بحران کے بعد عالمی تیل بازار میں آگ لگی ہوئی ہے۔مغربی ممالک بطور خاص امریکہ اس بحران کو کم کرنے کے لئے مغربی ایشیا کے ملکوں پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ تیل کی سپلائی بڑھائیں تاکہ عالمی بازار میں قیمتوں میں غیر ضروری اچھال نہ آئے،مگر ا س دبائو کو کوئی بھی خلیجی ملک قبول نہیں کررہا ہے۔ہندوستان کی وزیرمالیات نرملا سیتا رمن نے واضح کردیاہے کہ ہمیں بہت زیادہ رعایتی داموں پر کچا تیل مل رہاہے۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات کا اگر ہمیں کسی سیکٹر میں تھوڑا بہت فائدہ ہورہاہے تو ہم اس کا فائدہ کیوں نہ اٹھائیںگے۔
خیال رہے کہ عرب اور مغربی ایشیا کے علاوہ کئی مغربی اور غیر مغربی ممالک پٹرولیم کی اچھی پیداوار والے ملک ہیں۔سب سے پہلا نمبر امریکہ کا ہی ہے ، جب کہ دوسرے نمبر پر سعودی عرب کا ہے، تیسرا نمبر روس ،چوتھا کناڈا،پانچواں چین ہے۔ ملاحظہ کریں کپٹیل نمبر 1مجموعی طور پر پہلے دس ممالک غیر عرب اور غیر مسلم ممالک دنیا کی مجموعی تیل پیداوارکا 46فیصد تیل پیداکرتے ہیں۔اول دس ممالک میں مسلم یاعرب ممالک صرف 24فیصد حصہ ہی پیدا کرتے ہیں۔
اس ضمن میں ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے کہاہے کہ کئی ملک خودروس سے تیل اور دیگر توانائی کے وسائل خرید رہے ہیں تو وہ کس منھ سے ہندوستان کو یہ صلاح دے رہے ہیں کہ وہ روس سے تجارت بند کردیں۔روس یوروپ کے کئی ملکوں میںبڑی مقدار میں تیل اور گیس فراہم کررہاہے۔یوروپی یونین کے ممالک کی 38فیصدکچے تیل اور گیس کی ضروریات روس سے ہی پوری ہورہی ہیںاور یوکرین پرروس کی جارحیت کے باوجود یوروپی یونین کے ممالک اس ضروریات کوروس سے پوری کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس کے مقابلے میں ہندوستان اس مجموعی ضروریات کا صرف ڈیڑھ فیصد ہی روس سے خریدرہا ہے۔ اب جاکر 2021-22اپریل تاجنوری ہندوستان نے روس سے اپنا امپورٹ کچھ بڑھا یااور وہ 2.3فیصد ہوگیا ہے۔ اس وقت پوری دنیا بطور خاص یوروپی اور ناٹو ممالک روس کے خلاف پابندیاں سخت کررہے ہیں اور روس ہوسکتاہے کہ ان پابندیوں کے دبائو میں توانائی کے وسائل کی قیمتوں میںاور تخفیف کردے۔ایسے حالات میں ہندوستان اگر روس کے ساتھ روپے اور روبیل میں تجارت کرتا ہے تو اس سے دونوںملکوںکوفائدہ ہوگا۔
یوکرین بحران:انسانی ہمدردی اور توانائی کی ضرورت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS