یمن میں جنگ بندی کا اعلان: مسائل اور توقعات

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
سیاست خواہ قومی ہو یا بین الاقوامی دونوں کے بارے میں یہ بات سچ ہے کہ ایک ہفتہ کا وقت بھی بہت طویل ہوتا ہے اور اسی لئے کہنہ مشق سیاسی مبصرین ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ سیاست کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ایک ہفتہ یا ایک مہینہ میں صورت حال کیا ہو جائے گی۔ کچھ ایسا ہی یمن بحران کے سلسلہ میں بھی کہنا درست ہوگا۔ ابھی گزشتہ ہفتہ کی بات ہے کہ اسی کالم میں جدہ پر حوثی حملے کے ردعمل کے بطور یمن پر سعودی عرب کی قیادت والی اتحادی فوج کی جنگی کارروائی اور طویل مدت سے جاری اس جنگ کے مہلک اثرات پر روشنی ڈالی گئی تھی، اس کے ساتھ ہی یہ اشارہ بھی کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کے لئے حوثی جماعت کی طرف سے پیشکش بھی کی جا چکی ہے۔ گرچہ اس پیشکش کے اپنے عوامل تھے اور ان کا تذکرہ بھی کیا گیا تھا لیکن کئی مہینوں سے خلیجی ممالک اور اقوام متحدہ کی جانب سے لگاتار اس بات کی کوشش کی جاری تھی کہ کسی طرح سے یمن بحران کے فریقوں کو جنگ سے باز رکھنے کی ترکیب کی جائے اور گفتگو و بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی راہ نکالی جائے، کیونکہ اس خدشہ کا اظہار لگاتار کیا جا رہا تھا کہ تمام فریقوں نے اگر سنجیدگی سے یمن کے انسانی بحران کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو مسائل اس قدر پیچیدہ ہو جائیں گے کہ ان کا حل کر پانا مشکل ہو جائے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ غذائی اجناس کی قلت کا سامنا یمنی عوام کو درپیش ہے جس کے نتیجہ میں بھوک سے لاکھوں لوگوں کے لقمۂ اجل بن جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے بلکہ خود امراض کا مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے مزید بچے اور خواتین اپنی جانیں گنوا سکتے ہیں جس سے بحران کی صورت مزید خراب ہوسکتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ روس۔یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی برادری کی توجہ یمن سے ہٹ گئی ہے اور اس کا سیدھا اثر امدادی کوششوں پر پڑ رہا ہے۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یمن میں جنگ بندی کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ کتنا اہم ہے۔ اس کی اہمیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ 2016 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جبکہ یمن بحران سے جڑی تمام اہم پارٹیوں نے اس جنگ بندی کو قبول کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یمن میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ ہانس گرونڈبرگ نے رمضان کے مقدس مہینہ کے آغاز سے صرف ایک دن قبل جمعہ کو یہ بیان جاری کیا کہ یمن تنازع سے متعلق تمام فریقوں نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی تجویز کو مثبت ڈھنگ سے لیتے ہوئے اپنی رضامندی ظاہر کردی ہے اور 2 اپریل 2022 یعنی اول رمضان سے یمنی وقت کے مطابق سات بجے شام سے نافذ العمل ہو جائے گی تو تمام یمنیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے ایک یمنی انجینئر نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی برسوں کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب وہ اپنے اہل خانہ سے جنگ کے علاوہ نارمل باتیں کر پائیں گے۔ اس جنگ بندی کی اسی اہمیت کی طرف اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ نے بھی اپنے بیان میں اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس جنگ بندی کا مقصد یہ ہے کہ یمن کے باشندوں کو تشدد سے ایک ضروری بریک مل پائے، انسانی بحران کے مسائل و مشکلات سے راحت ملے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تنازع کے خاتمہ کے امکانات پیدا کئے جائیں۔ اس معاہدہ کے تحت تمام فریقوں نے یہ وعدہ کیا بھی ہے کہ وہ تمام جنگی کارروائیوں کو خواہ وہ فضائی ہوں یا بری و بحری روک دیں گے،حملے نہ تو یمن کے اندر سے کئے جائیں گے اور نہ ہی یمن کی سرحدوں کے پار سے۔ اس کے علاوہ حدیدہ کے بندرگاہوں میں ایندھن سے بھرے جہازوں کو داخلہ کی اجازت ہوگی کیونکہ سعودی عرب کی قیادت والے اتحادی ممالک نے حوثی قبضہ والے علاقوں پر جو پابندیاں عائد کر رکھی تھیں ان کی وجہ سے ایندھن کے ٹینکر وہاں تک پہنچ نہیں پا رہے تھے اور اسی بنا پر ایندھن کی قیمت آسمان چھو رہی تھی۔ اسی طرح یمن کی راجدھانی صنعاء جس پر حوثی باغیوں نے گزشتہ سات برسوں سے قبضہ کر رکھا ہے اور جہاں سے پروازیں بند ہیں کیونکہ سعودی عرب نے اس پر بمباری کرکے بہت حد تک ایئرپورٹ کو جنگ کے آغاز کے ابتدائی دنوں میں ہی تباہ کر دیا تھا اب وہاں سے مخصوص علاقوں کے لئے کمرشیل پروازوں کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ تعز اور دیگر یمنی علاقوں کے راستے کھولنے پر بھی بات چیت شروع ہوگی۔ یہ بہت سے پہلو ہیں جن پر اگر ایمان داری سے عمل کیا گیا تو حالات بہتر ہونے کے سارے اشارے ان میں موجود ہیں۔ اس معاہدہ پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہوئے یمن کے وزیر خارجہ ڈاکٹر احمد عوض بن مبارک نے اقوام متحدہ کی کوششوں سے ممکن ہونے والی اس جنگ بندی کو حوثیوں کی تجویز کردہ جنگ بندی سے بالکل مختلف قرار دیا ہے۔ یمنی وزیر خارجہ کے مطابق حوثیوں کی جنگ بندی کا اعلان کھوکھلا تھا کیونکہ اس کی ایک سطر پر بھی خود حوثیوں نے عمل نہیں کیا۔ البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کوششوں سے کامیاب ہونے والی جنگ بندی کا استقبال یمن تنازع سے جڑے تمام فریقوں نے کیا ہے۔
خود یمنی وزیر خارجہ نے اس کا استقبال کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوری طور پر دو ایندھن بردار جہاز حوثی قبضہ والے علاقہ حدیدہ میں اتارے جائیں گے جس سے عوام کو راحت ملے گی۔ حوثی باغی جماعت کی جانب سے بھی اس کے ترجمان محمد عبدالسلام نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ جنگ بندی کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح حوثی کے ایک اعلی ذمہ دار محمد حوثی نے لکھا ہے کہ اس معاہدہ کو نافذ کرکے اس کی مصداقیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر امریکی صدر جو بائڈن، برطانوی وزیر اعظم بوریس جانسن، خلیجی ممالک، ایران اور ترکی سب نے اس جنگ بندی پر مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ ہانس گرونڈبرگ کو اس معاہدہ سے اس قدر امید پیدا ہوگئی ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ ان کی کوشش اب یہ ہوگی کہ جنگ بندی کے اس معاہدہ کو جو فی الحال صرف دو مہینے کے لئے تنازع کے فریقوں کے درمیان ہوا ہے اور جس میں مزید تجدید کی گنجائش رکھی گئی ہے اس کو وہ اس ڈھنگ سے استعمال کریں گے کہ تمام فریقوں کے درمیان مزید بات چیت اور مباحثہ کی راہ ہموار ہو سکے تاکہ دھیرے دھیرے یہ مکمل جنگ بندی کے مرحلہ تک پہنچ جائے اور پھر اس کے بعد اہم اقتصادی اور انسانی پہلوؤں کو حل کیا جائے اور آخر میں سیاسی کارروائی کے ذریعہ اس بحران کے خاتمہ کی راہ نکالی جائے۔ یہ توقعات بیجا نہیں ہیں بلکہ عین یمنی عوام کی تمناؤں کی عکاس ہیں لیکن یمن مسائل پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں اور محققین کا ماننا ہے کہ اتنی امیدیں ابھی سے قائم رکھ لینا مناسب نہیں ہے، کیونکہ ماضی میں حوثیوں کی جانب سے ہر سنجیدہ کوشش کو کسی نہ کسی بہانہ سے ناکام بنانے کی مثالیں موجود ہیں۔ برسوں سے اقوام متحدہ، خلیجی ممالک اور امریکہ کی جنگ بندی کی کوششوں کے نتیجہ میں بھی کوئی بڑا بدلاؤ اب تک دیکھنے کو نہیں مل سکا ہے۔ صرف مختصر مدت کے لئے ہی تشدد میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ مستقبل میں اگر ایران اور سعودی عرب کے درمیان گفتگو کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا ہے اور حوثیوں کو ایران کی جانب سے ملنے والی ٹریننگ اور ہتھیار کا سلسلہ رکتا ہے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یمن میں انسانی بحران کا خاتمہ ہو جائے گا اور نئے ڈھنگ سے اس مسئلہ کا سیاسی حل نکل پائے گا۔ البتہ ایسا کرنے کے لئے تمام فریقوں کو سمجھوتوں کے کئی مراحل سے گزرنا ہوگا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS