ڈاکٹر ایم عارف_ بتیا، بہار؛ انڈیا،
عہ سرور علم ہے کیف شراب سےبہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں اور تعلیم حاصل کریں۔تو آئیے جانتے ہیں کیاہے تعلیم۔؟
پہچان ، اے غافل انسان!!میں ہوں کون؟تمہارا ہمدرد،تمہارا محسن،تمہارا دوست،تمہارا رہبر،تمہارا بہی خواہ،تمہارا خیال،تمہاری دولت،تمہاری عزت،تمہاری بہترین زندگی۔ پہچانا مجھے میں ہوں کون؟ شاید نہیں۔
اس خود غرض زمانے میں روزی،روٹی اور دولت کے علاوہ کسی کو پہچاننا بڑی مشکل ہے۔میں دہشت میں مددگار، اجنبی ماحول میں تنہائی کا دوست، خوش حالی و تنگدستی میں رہنما، دشمنوں کے خلاف ہتھیار، پریشانی وغم خواری میں مددگار، جاہل دوستوں کے نزدیک وزیر،حلال وحرام میں تمیز پیدا کرنے والا۔ جھوٹ و سچ، حق و باطل میں فرق سمجھانے والا۔ روشنی کی مینار۔زندگی کی وسعتوں کو کھول کر رکھ دینے والا۔حیوانیت سے انسانیت کی طرف لانے والا۔ تاریکی سے روشنی کا راستہ دکھانے والا۔ زوال سے عروج تک پہنچانے والا۔
پہچانا مجھے میں ہوں کون؟ اب بھی نہیں پہچانے۔ ترقی پزیر سماج کے لئے میری ضرورت۔اپنے خاندان کے دیکھ بھال کے لئے میری ضرورت۔جمہوری نظام کی جانکاری کے لئے میری ضرورت۔ملک کا اچھا شہری ہونے کے لئے
میری ضرورت۔پاکیزہ سماج،صالح معاشرہ اور تعمیری ذہن کے لئے میری ضرورت۔فرض منصبی کی ادائیگی کے لئے میری ضرورت۔مجھ سے ہی میزائل اور بموں کی ایجاد ہے۔ راکٹ ہے ،سائنس کی آواز ہے ، سب کے ہاتھوں میں موبائل ہے۔ جیت اور ہار ہے۔ پیار کی مار ہے۔ میری ہی وجہ سے تمہارے ہاتھوں میں آج کا اخبار ہے۔میری ہی وجہ سے کلام اور آزاد ہیں۔ میرا ہی دین سانس کو آنسٹین ہے۔میری ہی وجہ سے کووڈ کی ویکسین ہے۔ پوری دنیا میں چھایا غالب اور اقبال ہیں۔چاروں طرف داغ کا نام ہے۔ میر کی غزل ہے۔خیام کی رباعی ہے۔کبیر کے دوہے ہیں۔پریم چند کی کہانی ہے۔ ابن صفی کی ناول ہے۔بچوں میں مقبول مائل خیر آبادی ہیں۔
اب پہچانا مجھے میں ہوں کون ؟ اے غافل انسان! میں تعلیم ہوں ،تعلیم۔ علم کی اہمیت کو جان۔ عہ
علم ایک موتی بھی ہے، شبنم بھی ہے اور تارا بھی۔ہے اور غلط ہاتھ میں پڑ جائے تو انگارا بھی ہے۔
ساوتھ افریقہ کے ایک یونیورسٹی کے دروازے تعلیم کی اہمیت وافادیت پر فکر انگیز یہ جملے دیکھئے_” کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایٹم بم اور دور تک مارکرنے والے میزا ئلز کی ضرورت نہیں،بلکہ اس کےنظام تعلیم کا معیار گرادو اور طلباو طالبات کو امتحانات میں نقل لگانے کی اجازت دے دو، وہ قوم خود تباہ ہوجائے گی” اس ناکارہ نظام تعلیم سے نکلنے والے ڈاکٹر ز کے ہاتھوں مریض مرتے رہیں گے_انجنیر کے ہاتھوں عمارات تباہ ہو جائیں گے_معیشت دانو ں کے ہاتھوں دولت ضائع ہوجائے گئ_مذہبی رہنماوں کے ہاتھوں انسانیت تباہ ہو جائے گی _جج کے ہاتھوں انصاف کا قتل ہو جائے گا_استاد کے ہاتھوں نسلیں تباہ وبرباد ہوجائیں گی_ وزیراعظم کے ہاتھوں ملک دوسروں کے غلام ہوجائے گااور غلامی مقدر ہوجائے گی_نظام تعلیم کی تباہی ملک وقوم کی تباہی ہے۔
پہچان گئے نہ میں کون ہوں_؟اب میری نصیحتوں کو سنو !میری باتوں پر عمل کرو۔ ایک بار پھر اپنا دوست جانو۔ اپنے مددگار کو پہچانو۔ پھر ساری دنیا پر چھا جاؤ۔
تو چلو اسکول چلیں۔ تعلیم کو عام کریں۔اپنے علم و فن سے معاشرہ، سوسائٹی اور دنیا کو فیضیاب کریں۔ اپنے ملک میں امن و امان قائم کریں۔ زندگی کو سنواریں، اپنے مستقبل کو بنائیں اور کامیابی کی منازل طے کریں۔ علم سے دولت کمائیں ، عزت کمائیں اور نام بھی کمائیں ۔ عہ
علم کی راہوں میں جوکام آتے ہیں
فلک سے ان پہ مسلسل سلام آتے ہیں
علم کی جو وسعت بڑھانے والے ہیں
بہشت میں اپنا گھر بنانے والے ہیں ۔
تعلیم کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں_ ہر دور کے مختلف تقاضے اور ضرورتیں ہوتی ہیں_ موجودہ دور ترقی کا دور ہے_ ہر ملک کی ترقی وہاں کی خواندگی پر منحصر ہوتی ہے_اس دور کی سب سے بڑی ضرورت تعلیم ہے_یوں تو تعلیم کے بے شمار گوشے ہیں اور بے شمار میدان ہیں لیکن آج کےاس competitive دور میں تعلیم کے سیکٹر میں اتنے چیلنج،اتنی دشواریاں،اتنے مراحل اور بے شمار کورس ہوگئے ہیں کہ ان میں کسی ایک کو اولیت دینا بھی ایک مسئلہ بن گیا ہے جو کسی بھی چیلنج سے کم نہیں_
آج کے اس سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگانا سب سے مشکل کام ہے_ چاہے وہ بنیادی تعلیم ہو ثانوی تعلیم ہو، مخلوط تعلیم ہو یا نسوانی تعلیم – دینی تعلیم ہو یا دنیاوی تعلیم -کالج اور یونی ورسٹی کی سطح کی تعلیم ہو،یا مذہبی تعلیم ہو یا طبی professionalہو یاپھر کمپیوٹر سے متعلق، ہر شعبہ حیات میں اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں_ بلکہ اس کی اہمیت مسلم ہے_
“تعلیم ‘” جس طرح شخصیت سازی ،افراد سازی،ذہن سازی اور کردار سازی کا ذریعہ ہے_ کسی بھی ملک کا حال اور مستقبل اسی تعلیم سے وابستہ ہے_ تعلیم ہی وہ شے ہے جس سے ایک انسان عقل وشعور کا مالک بنتا ہے_ تعلیم کے ذریعے ہی انسان میں مہارت ، صلاحیت،لیاقت اور جدوجہد کرنے کی کوشش اجاگر ہوتی ہے_
آج کے ہنگامی،مشینی اور چیلنج بھرے دور میں صنعتی انقلاب نے تعلیم کے مقاصد کو محدود کردیا ہے_ اس انقلاب نے ماحول کے ساتھ ساتھ ،تعلیم کو بھی آلودہ کردیا ہے_
یہ ایٹم بم،یہ میزائل، یہ جنگی طیارے،یہ اسلحہ’ یہ مشین، یہ کون لوگ تیار کرتے ہیں؟ دنیا کی سپر پاور ملک کس نے بنایا _؟ لیکن آج ہم سرکاری تعلیم،غیر سرکاری تعلیم، دنیاوی تعلیم دینی تعلیم ، مخلوط تعلیم ونسوانی تعلیم – جنسی تعلیم،سیاسی تعلیم، کمپیوٹر کی تعلیم اور پیشہ ور تعلیم اور نقل کرنے کی تعلیم میں اس طرح الجھائے گئے ہیں کہ معیار تعلیم کیا چیز ہے پتہ ہی نہیں_؟ معیار تعلیم کو اس قدر پست کردیا ہےکہ ہمارے ملک کے طالب علم اور روشن مستقبل تعلیم گاہ، عبادت گاہ اور سیاست گاہ میں فرق وتمیز سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں_ درسگاہ جہاں درس دیا جائے تعلیم وتربیت دی جائے_ وہاں ہمارے ملک کے نوجوان طالب علم اسے سیاست کا اکھاڑہ بنائے ہوئے ہیں شور، ہنگامہ،افرا تفری،دھینگا مشتی کرتے ہوئے مذہبی جنون میں تعلیم گاہ وتربیت گاہ کو پارلیمنٹ ہاؤس اور الیکشن پرچار کااڈہ بنا دیا ہے۔ ووٹ بینک کا ذریعہ بناتے ہوئے تعلیم گاہ کو ہنگامہ گاہ بنا دیا ہے اس طرح اپنی زندگی برباد کرتے چلے جاتے ہیں_ اس سیاست ؛ مذہبی جنون میں اور بےہوشی کے عالم میں مذہبی افیم کھا کر وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو ایک ہوش باختہ اور تعلیم یافتہ شخص کبھی نہ کرتا_ہوش کب آتاہے جب وقت نکل چکاہوتا ہے_اب پچھتانے سے کیا حاصل _
اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دے کر اچھا اور سچا ملک کا وفادار ، انسانیت پرست ،اور مذہب پرست شہری بنایے۔کتابوں سے ربط رکھے۔ایک حقیقی طالب علم کی پہچان کتابوں سے ہے۔ اپنے اوقات کا زیادہ سے زیادہ استعمال علم کے حصول میں ہے ۔
کتابوں کے طالب جو طالب علم رہیں گے
ہمیشہ زمانے پہ غالب رہیں گے
جب تک ہماری قوم اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے فکر مند نہ ہوگی اور تعلیم کو اپنے بچوں کے لئے غذا اوردوا سے اہم نہیں سمجھیں گی تب تک عروج سے زوال کی طرف،بلندی سے پستی کی طرف،روزگارسے بے روزگاری کی طرف، صحت یابی سے بیماری کی طرف،ترقی سے تنزلی کی طرف تیز رفتاری کے ساتھ جاتی رہیں گی۔
آج ہم تعلیم یافتہ دور میں نہیں بلکہ مشینی دور میں سانس لے رہے ہیں_سائنس اود نفسیات نے ہمارے ذہن وفکر ونظر کو نئ حقیقت سے برابر آشنا کر رہی ہے_ جو جانی پہچانی نہیں پھر بھی حقیقت بن کر یقین اور اعتماد دلا کر اجاگر ہو رہی ہے_اور ہم اس سائنسی،صنعتی، مشینی اور انفارمیشن کے تیز رفتار دور میں اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ سوچنے،سمجھنے،اور سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے،حقیقت اور بناوٹی کا فرق وتمیز کرنے اور سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کا مہلت ہی نہیں _ ہم سب کی اپنی زندگی بھی اپنی نہیں رہی بلکہ مشین اور انفارمیشن کی ہو کر رہ گئی ہے_اب اس جدیدتعلیم یافتہ اورترقی یافتہ دور میں ہم لوگ اپنے دل ودماغ سے نہیں سوچتے بلکہ مشین سے زیادہ سوچتے اور مشین جو کچھ دکھاتا ہے اسے ہی دیکھتے بھی ہیں_اب اپنے دل ودماغ اور آنکھ پر یقین نہیں مشین پر زیادہ یقین ہے_
اس لئے اے نادان نوجونوں! جدید دور کے صنعتی، مشینی ،جنگی،اور تیز رفتاری سے ترقی کی صرف خواب دیکھنے والے بیوقوف نسلوں، تعلیم کی اہمیت کو سمجھو،صنعتی انقلاب نہیں تعلیمی انقلاب اپنے ذہن میں لاؤ ،تعلیم نہیں بلکہ ایک معیاری تعلیم حاصل کرنے کا حق دلاؤ _ تعلیم صرف تعلیم نہیں’ ایک نظریہ بھی نہیں بلکہ ذہنی ،جسمانی، ملکی اور انسانی تعمیر کا نام تعلیم ہے_ حقوق انسانی کی پامالی نہیں بلکہ حقوق انسانیت کی بحالی اور تحفظ کا نام تعلیم ہے_ہمیں صرف تعلیم نہیں معیار تعلیم پر توجہ کی ضرورت ہے_تعلیم کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں_کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا نہیں_یہ سب دلفریب باتیں ہیں جو انسانی فلاح ،خوش حالی،امن و امان، ترقی مقصد انسانیت اور فلاح انسانیت اور حصول تعلیم نہیں بلکہ زر تعلیم،پیشہ تعلیم اور تجارت تعلیم ہے_پروپگنڈہ ہے جو تعلیم کے مختلف شعبوں میں پھنسی ہے_جو طالب علموں کے ذہن کو تعلیم کے نام پر زہر آ لود کرنے کی براہ راست یا بالواسطہ کوشش ہے_کیا تعلیم کا کام دنیا کو جہنم بنانا ہے_؟آخر کیا کیا گل کھلا رہی ہے ہماری جدید تعلیم_انسانی حقوق کی پامالی ایک سنگین جرم ہے_چاہے کوئ گروہ انجام دے_حکومت انجام دے یا کوٹ،یا کوئی فرد_ اس سے نقصان صرف متاثرہ افراد یا ایک ملک کو ہی نہیں ہوتا بلکہ ساری دنیا اورساری انسانیت کو ہوتا ہے_ تعلیم کے معاملہ میں ذہن کو ٹھیک کرنا ہوگا_تعلیم نفرت کی تجارت نہیں کرتی _ تعلیم انسانی جسم کےزخموں ہر نمک اور مرچ نہیں لگاتی بلکہ تعلیم زخموں پر مرہم کےلئے ہے_تعلیم آ گ میں گھی ڈالنے کا کام نہیں کرتی بلکہ آ گ میں پانی ڈال کر اگ بجھانے کا نام تعلیم ہے _حصول تعلیم،حصول مقصد اور صرف تعلیم نہیں معیار تعلیم کےلئے ہم طالب علم ،ہم تعلیم یافتہ خود خواب غفلت سے کب بیدار ہونگے_؟ ہر تعلیم یافتہ اپنی ذمہ داری کب اور کس طرح نبھائیں گے_اور آ خر کب تک اپنی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتیں گے_کیا اب بھی مقصد تعلیم زندہ ہے_؟یا مقصد سیاست اور زر تعلیم کا نام حصول تعلیم رہ گیا ہے__؟ذرا ان مشینی ،صنعتی ، جنگی اور سیاسی انقلاب سے الگ ہوکرفرصت کے اوقات میں ذہن،دل ودماغ اور جسم کو ایک جگہ رکھ کر سنجیدگی سے غور وفکر کریں_
#######اختتام #######
Dr M ARIF,
KALI BAGH
BETTIAH_BI HAR_INDIA,
EMAIl_ Mohammad arif alam, 2018@ G
mail,com
Mob no 7250283 933
DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of information contained.