روس یوکرین جنگ کو دیکھ کر دل میں یہ خیال کیوں آتا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے سے زیادہ باقی دنیا کی توجہ اس مسئلہ سے منسلک کسی اور ہی موضوع پر مرکوز ہے۔ جنگ ختم کیسے ہو، اس کے بجائے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ کون کس جانب ہے؟ اور یہ کہ جو موجودہ وقت میں اس جانب نہیں ہے اسے تاریخ کس طور پر یاد کرے گی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس تاریخ کے نام پھر بدنامی کا ہوّا کھڑا کیا جارہا ہے، وہی ایسی تمام مثالوں سے بھری ہوئی ہے جو بتاتی ہیں کہ مسئلہ کے مبینہ قصوروار ملک پر پابندیاں مسئلہ کا حل نہیں، بلکہ اسے مزید پیچیدہ بنانے کا ذریعہ ثابت ہوئی ہیں۔ اوّل تو ان پابندیوں کا اثر نظر آنے میں ہی کافی وقت نکل جاتا ہے، اس پر اتنے وقت میں مسئلہ کے حل ہوجانے پر یہ پابندیاں کسی کام کی نہیں رہ جاتیں۔ سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی امریکہ کی سرپرستی میں تقریباً پوری مغربی دنیا جوں کی توں انداز میں اسی جگاڑ میں لگی ہوئی ہے کہ بار بار ناکام ہوچکے پابندیوں والے گھسے پٹے فارمولے کو آزما کر کسی طرح روس پر نکیل ڈال دی جائے۔ جنگی علاقہ جس طرح جھلس رہا ہے اس کے بعد کہنے کی ضرورت نہیں کہ پابندیوں کا اثر نہ پہلے ہوا ہے، نہ اس مرتبہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
یوکرین پر حملہ شروع ہونے کے بعد امریکہ سمیت مغرب کی جانب سے روس پرتقریباً 5,000چھوٹی بڑی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تیل اور گیس کی سپلائی سے متعلق ہیں جسے روس کی معیشت کی ریڑھ سمجھا جاتا ہے۔ سوچ یہی ہے کہ اس ریڑھ کو توڑ دیا جائے تو روس کے لیے کھڑے رہ پانا مشکل ہوجائے گا، لیکن یہ داؤ اُلٹا پڑتا نظر آرہا ہے۔ کچھ روس کی روبل میں سودے والی ہوشیاری کے سبب، کچھ کئی ممالک کے تیل اور گیس پر انحصار کی مجبوری کے سبب۔ جنگ چھڑنے کے بعد سے ہندوستان نے روس سے کفایتی داموں پر لاکھوں بیرل کچا تیل خریدا ہے اور یہ اس بنیاد پر منطقی لگتا ہے کہ ہندوستان نے یہ قدم اپنے شہریوں کی سہولت کو دیکھتے ہوئے اُٹھایا ہے۔ جرمنی جیسے کئی یوروپی ممالک بھی ٹھیک ایسا ہی کررہے ہیں۔ بیشک ہندوستان کا یہ فیصلہ امریکہ کو ناگوار گزرا ہے، اس کے باوجود دورئہ ہند پر آئے ڈپٹی این ایس اے دلیپ سنگھ کے غیرذمہ دارانہ بیان سے پہلے تک اس کا ردعمل متعدل ہی رہا تھا۔ دراصل روس سے تیل خریدنے کے تعلق سے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کو یہ لگتا ہے کہ روس پر عائد کی گئی پابندیوں کو ہندوستان کم کرکے دیکھ رہا ہے۔ اس لیے یہ ممالک ہندوستان پر اپنے بیانات سے مسلسل دباؤ بنانے کی کوششیں کررہے ہیں کہ روس سے محدود مقدار میں کفایتی تیل کی درآمد پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہندوستان بندرگاہوں، سونے اور توانائی کے شعبوں سے متعلق روس پر عائد کئی پابندیوں کا بھی احترام کرے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان ویسے بھی روس سے اپنے تیل درآمد میں قابل ذکر اضافہ نہیں کرے گا کیوں کہ یوکرین میں جنگ کے نتیجہ میں بڑھی ہوئی انشورنس کی شرح کے سبب چھوٹ کے باوجود روسی تیل ہندوستان کے لیے مہنگا ہے۔ سال 2021میں بھی ہندوستان نے روس سے تقریباً 12ملین بیرل تیل خریدا تھا۔ کچے تیل کی ہماری کل درآمد 175.9ملین ٹن کی ہے۔ اس لحاظ سے یہ صرف 2سے 5فیصد کے درمیان ہے۔ اس مالی سال کے 10مہینوں میں بھی ہندوستان نے روس سے 4لاکھ 19ہزار ٹن کچا تیل خریدا ہے، جو ہماری کل درآمد کا محض0.2 فیصد ہے۔ روسی کچے تیل کو لے کر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اسے پروسیس کرنے کی صلاحیت والی زیادہ ریفائنریاں بھی نہیں ہیں۔ ایسے میں روس سے تیل خرید کر ہندوستان اپنی ضرورت پوری کرنے سے کہیں زیادہ باقی دنیا کو یہ بڑا پیغام دے رہا ہے کہ مغرب کی پابندیوں کے باوجود اس کی جانب سے دونوں ممالک کے پرانے رشتوں کی گرم جوشی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
اور اگر حکومت ہند ملک کے مفاد میں بھی ایسا کررہی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ کیا امریکہ اس پالیسی پر نہیں چلا؟ ایسے میں سوال تو یہ پوچھا جانا چاہیے کہ امریکہ نے کب دنیا کے بھلے کے لیے اپنے مفاد کو قربان کیا؟ زیادہ پیچھے نہ جائیں، ڈونالڈ ٹرمپ کے تو پورے دوراقتدار کی پہچان ہی ’امریکہ فرسٹ‘ کی پالیسی رہی تھی۔ امریکہ بتائے کہ اس نے اس دور میں کتنے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل کیا؟ ٹرمپ کے دورحکومت میں امریکہ نے اپنی مرضی چلاکر ایرانی ایٹمی معاہدہ کو رد کیا، پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ سے وہ پیچھے ہٹ گیا، اس نے ایٹمی- ہتھیار- کنٹرول معاہدوں کو اپنی موت مرجانے دیا اور ٹرانس- پیسفک پارٹنرشپ سے خود کو باہر کھینچ لیا۔ اس میں اکیلے اپنی ضد پوری کرنے کے لیے چین سے ٹریڈوار اور بغیر اطلاع کے جرمنی سے امریکی فوج کی واپسی کے اعلان کو بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ دراصل امریکہ نے ہمیشہ ایک فریقی پالیسی کو طاقت سمجھا ہے اور اپنے ساتھیوں کو اس کے مطابق سلوک کرنے کے لیے مجبور کیا ہے۔
گزشتہ کچھ وقت سے طاقت کا یہ مظاہرہ امریکہ پر ہی بھاری پڑا ہے اور وہ مضبوط ہونے کے بجائے سمجھوتے کے لیے مجبور ہوا ہے۔ ہندوستان سے اس کے تعلقات کے تناظر میں یہی بات نافذ ہوتی ہے۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور اس کی بنیاد قومی مفاد ہے۔ دورئہ ہند پر آئے روسی وزیرخارجہ سرگیئی لاوروو نے اس بات کو پکڑتے ہوئے نہ صرف گرم لوہے پر ہتھوڑا مارا ہے، بلکہ اسے ہی دونوں ممالک کی دہائیوں کی اٹوٹ دوستی اور شراکت داری کی بنیاد بتایا ہے۔
دراصل روس کے ساتھ ہمارے تعلقات میں تیل کا مسئلہ اتنا بڑا ہے ہی نہیں جتنا بڑا اسے دکھایا جارہا ہے۔ اصل تشویش تو سیکورٹی سے منسلک ہے۔ ہندوستان، چین کے ساتھ لگتی اپنی سرحد کی سیکورٹی کے لیے کافی حد تک روسی فوجی آلات(military equipment) پر منحصر ہے۔ 1962میں مگ-21لڑاکو طیاروں کی پہلی خریداری کے بعد سے یہ روایت ٹوٹی نہیں ہے۔ روس سے ہندوستان نے حال ہی میں S-400فضائی دفاعی نظام سمیت دوسرے ہتھیاروں کا بڑا معاہدہ کیا ہے، جس کی ڈیلیوری ابھی بھی التوا میں ہے۔
ظاہر ہے نہ تو ہندوستان کی سیکورٹی سے متعلق ضرورتیں راتوں رات بدل سکتی ہیں، نہ ہتھیاروں کے لیے روس پر ہمارا انحصار۔ یہ ایک طرح سے ہماری وارثت ہے۔ جو دفاعی آلات ہمیں روس سے ملے ہیں، ان کے پرزے بھی روس ہی بناتا ہے۔ ایسے میں اس کی جگہ لے گا کون؟
اس سب کے باوجود گزشتہ ایک دہائی میں ہندوستان مغربی ممالک کے بھی نزدیک آیا ہے۔ اب تو یہ باہمی تعاون ہند-بحرالکاہل علاقہ میں چین کی ڈپلومیسی اور فوجی حملہ کو روکنے کے لیے امریکہ کی حکمت عملی کا مرکزی نقطہ بھی بن چکا ہے۔ آج ہندوستان امریکہ کے ساتھ 100ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت کررہا ہے، جب کہ روس کے ساتھ یہ تقابلی اعداد و شمار محض 8ارب ڈالر ہیں۔ اس سب سے یہ واضح ہے کہ اگر روس پر پابندی لگانی امریکہ کی مجبوری ہے تو تیل، ہتھیار اور چین جیسی کئی وجوہات کے سبب روس سے دہائیوں پرانی دوستی نبھانا ہندوستان کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اس لیے امریکہ کے لیے بھی یہ بہتر ہوگا کہ وہ مستقبل میں ہندوستان میں چین کی دراندازی کے خدشہ میں روس کے کردار پر سوال کرنے کے بجائے اس بات کو طے کرنے کی زیادہ فکر کرے کہ موجودہ وقت میں یوکرین میں جو دراندازی ہورہی ہے، اسے روکنے میں اس کا کردار کیا ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS