اسلام آباد (یو این آئی) پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ہفتہ کے روز یوکرین پر روس کے حملے کو ایک‘‘بڑا سانحہ’’ قرار دیتے ہوئے جنگ کو فوری طور پر ختم کرنے کی اپیل کی۔اسلام آباد سیکورٹی مذاکرات پر بات کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا ‘‘روس کے سیکیورٹی تشویشات کے باوجود، ایک چھوٹے ملک کے خلاف اس کی جارحیت کو معاف نہیں کیا جا سکتا’’۔پاکستان نے مسلسل جنگ بندی اور دشمنی کے خاتمے کی اپیل کی ہے ۔ ہم جنگ بندی کا مستقل حل تلاش کرنے کے لیے تمام فریقین کے درمیان فوری بات چیت کے حق میں ہیں۔ڈان نے آرمی چیف کے حوالے سے کہا کہ روسی حملے میں ہزاروں افراد ہلاک، لاکھوں مہاجر اور یوکرین کا نصف حصہ تباہ ہو گیا۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔روسی فوجی آپریشن کے خلاف بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وکرین نے چھوٹے ممالک کو ہمت دلائی ہے کہ وہ اپنے دفاعی آلات کو جدید یا اپ گریڈ بناکربڑے ملکوں کے حملے سے اپنے علاقے کی حفاظت کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے یوکرین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن روس کے ساتھ تعلقات کئی وجوہات کی بنا پر خاصے اچھے نہیں رہے ۔واضح رہے کہ 24 فروری کو روس نے یوکرین پر فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔
پوتن کا یوکرین کو شکست دینے کا منصوبہ ناکام ہو گیا:وہائٹ ہاؤس
دبئی(ایجنسیاں) : یوکرین میں روسی فوجی آپریشن دوسرے ماہ سے جاری ہے۔دوسری طرف وہائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کیف کوشکست دینے کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ کریملن رہ نما یوکرین کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن یوکرین کو روس کے کسی بھی کیمیائی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ساز و سامان فراہم کر رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو جواب دیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ واشنگٹن یوکرین کی مدد کے لیے اضافی دو بلین ڈالر مختص کرے گا جو روس پر غیرمعمولی اقتصادی پابندیوں کے مسلسل نفاذ کا اشارہ ہے۔گزشتہ فروری سے جاری جنگ کے دوران یوکرینی فوج کو شکست دینے کے لیے روس نے بارہا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا امکان اٹھایا ہے جسے روسی حکومت ایک ’خصوصی آپریشن‘سے تعبیر کرتی ہے۔کریملن نے پہلے کہا تھا کہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال صرف ’وجود کے خطرے‘کی صورت میں کیا جائے گا۔قابل ذکرہے کہ 24 فروری کو اس آپریشن کے آغاز کے بعد سے روسی افواج شمال مشرق میں ہونے والی پیش رفت کے علاوہ یوکرین کے کسی بھی بڑے شہر پر مکمل کنٹرول نہیں کر پائی ہیں۔