شاہنواز احمد صدیقی
پچھلے دنوں کووڈ19-کے پھوٹ پڑنے اور لاک ڈائون کے دوران عام آدمی خود کو جتنا پریشان اور بے بس محسوس کررہاتھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، یہ وہ سخت دورتھا جب آدمی کو اپنی زندگی بچانا محال ہورہاتھا۔اس سخت دور میں رشتوں کی حرمت اور اہمیت ختم سی ہوگئی تھی ، مگر کچھ ادارے، شخصیات اور تنظیمیں ایسی تھیں جنہوں نے اس وقت بھی تن من کی بازی لگاکر بنی نوع انسان کی خدمت کی۔ ہندوستان میں سرگرم اس تعلق سے تنظیموں کے اہم تعاون میں سکھوں کے گرودوارو ں سے چلنے والے لنگروں کا بھی شمارہوتاہے جنہوں نے سماج کے مفلس ترین طبقے کو دوقت کا کھانا پہنچایا ،دوا پہنچائی اور ایسے وقت میں جب آکسیجن نہیں مل رہی تھی اور بیمار لوگ زندگی اور موت کے درمیان جدوجہد کررہے ضرورتمندافراد کو آکسیجن مہیا کرائی۔ پوری دنیا بڑی حسرت اور رشک کے ساتھ گرودواروں سے وابستہ افرادکودیکھ رہی تھی۔ہرانسان میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ ہوتاہے، مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ اپنے جذبات اور احساسات کو عملی جامہ نہیں پہنا پاتا، مگر سکھوں کے اداروں نے وسائل مہیاکراتے ہوئے جس والہانہ انداز میں خدمت کی وہ بے مثال ہے۔سکھوں کی تنظیم اور ڈسلپن اکثر زیرگفتگو رہتاہے اور لوگ اس نظام اور جذبہ کو قابل تقلید قرار دیتے ہیں ، اس جذبہ کے پیچھے جونظام کام کررہاہے وہ نہ صرف یہ ایمانداری ، جذبہ خیر سگالی اور اچھے نظم کا مرہون منت ہے۔
شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی )اکالی تخت کا سب سے طاقتور اور مالدار ادارہ ہے، یہ سکھ برادری کے ذریعہ چلائے جارہے، زیادہ تر رفاہی، فلاحی اورتعلیمی اداروں کا انتظام وانصرام دیکھتا ہے۔گزشتہ روز شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے 2022-23 کا بجٹ پیش کیاتھا۔یہ بجٹ 988.15 کروڑ روپے کا تھا۔ یہ ادارہ گرودواروں سے ہونے والی مجموعی آمدنی کاصرف 38فیصد ریونیوہی حاصل کرپاتا ہے۔اس کے باوجود یہ ادارہ جس قدر وسیع پیمانے پر خدمات انجام دے رہاہے اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔
سکھ گرودوارہ ایکٹ 1925کے تحت چلنے والا یہ نظام 53 اسکول ،35ڈگری کالج ، ایک میڈیکل کالج ، ایک ڈینٹل ، ایک نرسنگ،دوانجینئرنگ کالج ، ایک پالی ٹیکنیکل کالج کے علاوہ دویونیورسٹیاں بھی چلارہاہے۔یہ ادارہ انتہائی منظم مربوط اور جمہوری طور پر منتخب نظام کے تحت کام کرتاہے ، اس کے 191 ممبران ہیں، جن میں سے 170منتخب ہیں۔یہ کمیٹی پنجاب ، ہریانہ ، ہماچل پردیش اور چنڈی گڑھ سے منتخب ہونے والے افراد پر مبنی ہے۔مگر جب وقت پڑتا ہے یہ ادارہ ملک کے کسی بھی کونے میں پہنچ جاتاہے اور سکھوں اور دوسرے لوگوں کی مدد کرتا ہے ۔ایس جی بی سی کے 15ممبران ملک کے مختلف حصوں کے سکھوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔جب کہ 6ممبران اکالی تخت کے نصف درجن جھتہ دار ہوتے ہیں ان میں اکالی تخت کے سربراہ بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ اور ایک ممبرہرمندر صاحب کے سچ کھنڈ کا ہیڈ گرنتھی ہوتاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بااختیارادارہ میں خواتین کو بھی معقول حصہ داری ملتی ہے اور 191ممبران میں سے 30نشستیں عورتوں کے لئے محفوظ ہوتی ہیں۔ تقریباً 98سال سے چلاآرہاہے یہ نظام شفافیت اور خودسپردگی کے جذبے سے کام کررہاہے۔ایس جی پی سی اپنی تاریخی وراثت کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور 83ایسے گرودوارے جو کہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ،ان کے نظام بھی چلارہا ہے۔ایس جی پی سی مجموعی طور پر 200 گرودواروں کاانتظام وانصرام دیکھتی ہے۔ایس جی پی سی سکھوںکی تاریخ اور ان سے متعلق امور پر گہری نظر رکھنے ، مطالعہ کرنے اور سکھوںسے متعلق لٹریچر کو فروغ دینے اور سکھ نظریات کی توسیع اور تبلیغ کے لئے بھی کام کررہی ہے۔ ایس جی پی سی نے ایک سکھ ریسرچ بورڈ قائم کررکھاہے اور امرتسر میں سکھ ریفرنس لائبریری بھی درس وتدریس وتحقیق کے میدان میںخدمات انجام دے رہی ہے۔
گزشتہ روزایس جی پی سی کے بجٹ کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے کمیٹی نے آمدنی سے زیادہ خرچ کی تفصیل اور منصوبے پیش کئے ہیں۔ایس جی پی سی کے سربراہ ہرجندر سنگھ دھامی کا کہناہے کہ کمیٹی کو اپنے ادارے چلانے کیلئے 231.83 کروڑروپے کی رقم کی ضرورت پڑے گی، جبکہ اس کی موجودہ آمدنی 203.60 ہے۔ گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے جو اپنا منصوبہ پیش کیا ہے اس میں تعلیم کے ساتھ صحت پر بھی بہت زیادہ فوکس کیاہے۔سوشل سروس اسکیم کے تحت امرتسر میں اکالی تخت میں 4 خصوصی میڈیکل اسٹور کام کررہے ہیں یہ میڈیکل اسٹور تخت کیس گڑھ صاحب (آنند پور صاحب) ، تخت دمدما صاحب (تلونڈی صابو)اور گرودوارہ وبیر بابا بدھا صاحب تھاتھا(ترن تارن) شامل ہیں۔
اس تحریر میں ایس جی پی سی کی سرگرمیوں سے روشناس کرانے کامقصدمسلمانوں کو دعوت فکر دیناہے جو محلے کی ایک مسجد میں بجلی ، پانی کاانتظام کرنے کے لئے بنائی گئی معمولی تنظیموں میں بھی سیاست کرنا شروع کردیتے ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر جوتم پیزار ہوجاتے ہیں۔ اربوں روپے کا انتظام کرنے والے گولڈن ٹیمپل میں دنیا بھر سے لاکھوں لوگ آتے ہیں اور خوش اسلوبی کے ساتھ درشن کرتے ہیںاور مذہبی فرائض انجام دے کر چندہ دیتے ہیں۔اہل خیرحضرات بلا جھجھک خطیر رقومات پیش کردیتے ہیں چونکہ ان کو اس بات کا یقین ہوتاہے کہ گرودواروں کا انتظام وانصرام شفاف ہے اور رقم کے خردوبرد ہونے کا امکان نہیںہے۔چھوٹے سے چھوٹے گرودوارے میں صفائی ستھرائی کا وہ بے نظیر نظام ہوتاہے جس کو دیکھ کر لوگ عش عش کرتے ہیں۔خیال رہے کہ سکھ وہ قوم ہے جس کے یہاں زکوٰۃ وخیرات کی ادائیگی کا کوئی بقاعدہ مذہبی کوئی حکم نہیں ہے اور محض ایک جذبہ کار فرماہے کہ ہر ضرورت مند ، بے بس اور غریب کی مدد کرنا۔ اس جدبے کو بقاعدہ عملی شکل دینے میں نہ صرف یہ کہ جذبے کا پاک ہونا ضروری ہے بلکہ اتنے بڑے نظام کو چلانے والے افراد کامخلص ہونا بھی لازمی ہے۔آج اگر ہم اپنی مساجد ، چنداسکولوں،مدرسوں اور اداروں کو اسی جذبے کے ساتھ چلائیں توہمارے بہت سے مسائل توحل ہوں گے ہی ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مجموعی امیج بھی بہتر ہوگی۔ ہندوستان کے کسی بھی بڑے شہر یا قصبے کی کوئی تاریخی یا بڑی مسجد کے ارد گرد کا ماحول اس قدر آلودہ اور پرشور ہوتا ہے کہ بعض لوگ ناک پر کپڑا لے کر نکلتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ان مقامات کی طرف سرکاری اداروں ، بلدیاتی ایجنسیو ںاور سرکاری ملازمین کی توجہ اس قدر نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہئے لیکن کچھ ذمہ داریاںہماری بھی تو ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارے نوجوان جن کے پاس اچھا خاصا وقت ہے وہ افراد اور ادارے جن کے پاس وسائل اور دوراندیش افراد ہیں مل جل کر مجموعی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے میدان عمل میں آئیں اور جو گزشتہ 75سال میں نہیں ہوپایا اس کی محض شروعات اسی پاک مہینے سے کردیں جو چندروزبعد شروع ہونے والا ہے۔
کیا خیرامت کو سکھوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS