غربی بنگال کی سیاست میں پیش آنے والاہر واقعہ اپنے آپ میں غیر معمولی ہوتا ہے۔انتخاب کے دوران تشدد اور قتل و غارت گری ہویا عام دنوں میں ہونے والا سیاسی تشدد اپنے اثرات و حجم کے سبب پورے ملک کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ بیر بھو م ضلع کے رام پورہاٹ میں ہونے والے قتل عام کے ایک ہفتہ بعد مغربی بنگال قانون ساز اسمبلی میں پیر کے روز جو نظار ہ سامنے آیا وہ بھی اپنے آپ میں غیرمعمولی ہی کہاجائے گا۔بجٹ اجلاس کے آخری دن ترنمول کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان اسمبلی بحث کے دوران دست و گریباں ہوگئے ا ورایک دوسرے پر لات گھونسے اور مکوں کی بارش کردی جس میں کسی رکن کی ناک پھوٹی توکسی کاگریبان چاک ہوا۔یہ ارکان اسمبلی رام پور ہاٹ قتل عام کے حوالے سے ایوان میں وزیراعلیٰ ممتابنرجی سے بیان دینے کا مطالبہ کررہے تھے لیکن وزیراعلیٰ اجلاس سے غیرحاضر5دنوں کے شمالی بنگال کے دورہ پر ہیں۔
ایوان قانون سازیہ پارلیمنٹ ہو یا ریاستی اسمبلی انہیں جمہوریت میں تقدس کادرجہ حاصل ہے لیکن یہ تقدس، جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاسی نمائندوں کے ہاتھوں ہی تار تار ہوتا رہتا ہے۔بجٹ اجلاس کے آخری دن مغربی بنگال اسمبلی میں جو کچھ بھی ہوااور جس کسی نے بھی کیا وہ قابل مذمت ہے۔ اسمبلی کے اسپیکر بمان بندوپادھیائے نے بھی کہا کہ ایوان کی تاریخ میں ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا ہے۔یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، جھگڑا کرنے والے ارکان، اسمبلی کے قواعد و ضوابط سے ناواقف ہیں،وہ اسمبلی کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے اور ان کا مقصد صرف اسمبلی میں ہنگامہ کرنا ہے۔
بی جے پی ارکان اسمبلی بیربھوم میں رام پورہاٹ قتل عام کے سلسلے میں اسمبلی اجلاس شروع ہوتے ہی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے بیان کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسپیکر بمان بندوپادھیائے کی جانب سے مطالبات ماننے سے انکار کرنے کے بعد بی جے پی ارکان نے نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ اس کے بعد یہ ارکان چاہ ایوان میں اتر کر اسپیکر کے سامنے شور و غوغاکرنے لگے، حکمراں ترنمول کانگریس کے ارکان بھی پیچھے نہیں رہے اوران کا جواب دینے کیلئے خود بھی چاہ ایوان میں کود پڑے۔ اور پھر ان عزت مآب اراکین قانون سازیہ نے ایوان کے تقدس کا جامہ تار تار کردیا، دونوں ہی طرف سے ہاتھاپائی ہوئی، لات، گھونسے اور مکے چلائے جانے لگے اور ہنگامہ طول پکڑگیا۔اس ہنگامہ میں کسی کے کپڑے پھٹے تو کسی کی ناک پھوٹی، کئی ارکان نے زخمی ہونے کی شکایت کی۔ترنمول کانگریس کے رکن اسیت مجمدار کو ناک میں چوٹ لگنے کے بعد فوری طور پر اسپتال میں داخل کرایا گیا،اسپتال جانے کے راستہ میںاسیت مجمدار نے قائد حزب اختلاف شوبھیندو ادھیکاری کانام لے کر کہا کہ ان کے ہی گھونسے اور مار سے ان کی ناک پھوٹی ہے۔
اس ہنگامہ کیلئے دونو ں ہی پارٹیاں ایک دوسرے کو الزام دے رہی ہیں۔بی جے پی نے الزا م لگایا ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار اسمبلی میں آئے اور بی جے پی ارکان کو مارا پیٹا۔ترنمول کانگریس کے رکن شوکت ملا کی قیادت میں بی جے پی کے چپ وہپ منوج تگا کے کپڑے پھاڑ کر انہیں مارا پیٹا گیا۔بی جے پی کی ایک خواتین رکن نے بھی اپنے اوپر حملہ کرنے کا الزام لگایاہے۔دوسری طرف ترنمول کانگریس کی رہنما اور ریاستی حکومت کی وزیر چندریما بھٹاچاریہ نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی کے ارکان نے بلا اشتعال حملے کیے، خواتین اور اسمبلی کے افسران کو بھی زد و کوب کیاگیا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ مغربی بنگال قانون سازاسمبلی میں جو کچھ ہوا، وہ یک طرفہ نہیں تھا۔ حکمراں اور حزب اختلاف دونوں ہی اس واقعہ کیلئے برابر کے ذمہ دار ہیں،دونوں ہی جانب سے ایوان کا تقدس اور وقارپامال کیاگیا۔ قانون سازوں نے قانون شکنی کی اور دونوں ہی اس کیلئے سزاوار ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے اس کی ذمہ داری سے نہ تو ترنمول کانگریس بچ سکتی ہے اور نہ ہی بھارتیہ جنتاپارٹی اس کاکوئی جواز تراشنے کا حق رکھتی ہے۔
یہ واقعہ صرف مارپیٹ کا ایک معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ مغربی بنگال کے موجودہ سیاسی کلچر کا اظہار ہے جس میں مخالفین کی زبان بندی کیلئے ان کے ساتھ مار پیٹ، تشدد اور قتل تک کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوگئی ہے۔ یہ کلچر آج شروع نہیں ہوا ہے۔ بایاں محاذ کا 34 سالہ دور سیاسی تشدد کی کہانیوں سے بھراپڑا ہے۔ترنمول کانگریس کی ماں ماٹی مانس کی حکومت سے پہلے پہل یہ توقع تھی وہ اس سیاسی تشد د اور سیاسی قتل و غارت گری کے اس کلچر کو ختم کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ رام پورہاٹ کا لرزہ خیز قتل عام معاملہ بھی اسی سیاسی تشدد کی ایک شکل ہے جس پر حکومت سے بیان کا مطالبہ کرنے والا حزب اختلاف اور حکمراں دونوں ہی تشدد پراترآئے اور تقدیس جمہوریت کی علامت ایوان کا وقار تباہ کرڈالا۔ اس واقعہ کے بعد اسپیکر بمان بندوپادھیائے نے بھلے ہی چند ارکان اسمبلی کو معطل کردیا ہے، لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ارکان کو جمہوریت میں اسمبلی کی اہمیت بتائی جائے اورمغربی بنگال کے اس سیاسی کلچر کو ختم کیاجائے جس نے صبر، تحمل، برداشت اور مخالفین سے بھی حسن سلوک کی اعلیٰ انسانی صفت کو نگل لیا ہے۔
[email protected]
مغربی بنگال کا سیاسی کلچر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS