شاہد زبیری
اردو صحافت کے دوسو سال کی صحافت کی داستاں لاکھوں صفحات پر محیط ہے جو اخبارات کی فائلوں اور کتابوں کے صفحات پر رقم ہے،یہ طویل داستاں سرفروشی، قربانی ، حق گوئی اور قلم کی آبرو کی بے مثال داستاں ہے ۔اس سے پہلے کہ اردوصحافت کے انقلابی رجحا نات، سرفروشی ،قربانی اور حق گوئی پر کچھ کہا جا ئے ،ماضی ، حال اور مستقبل پر نظر ڈالی جائے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اردو صحافت کے دوسو سال کا تعین کس بنیاد کیا جا رہا ہے ۔یہ بحث ہمیشہ محققین کے درمیان رہی ہے کہ اردو کاپہلا اخبار کون ساہے؟ اس بحث پر سر سری نظر ڈالیں تو اس کا آغاز اردو کے ممتاز ادیب مولوی محمد حسین آزاد کی معروف کتاب’ آبِ حیات‘ سے ہو تا ہے جو 1888میں شائع ہوئی تھی ۔ محمد حسین آزاد نے سب سے پہلے اس کتاب میں مولوی محمد باقر جو اردو صحافت کے پہلے شہید کہلاتے ہیں ان کے اخبار’ دہلی اردو اخبار‘کو اردو کا پہلا اخبار قرار دیا۔ مولوی محمد باقر مولوی محمد حسین آزاد کے والد تھے لیکن ان کے اس دعوے کو مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے دیا نگم نرائن کے رسالے میں سیّد محمد خاںکے اخبار ’سیّدالاخبار‘ کو اردو کا پہلا اخبار مانا لیکن نواب زادہ اے ایف عبدالعلی نے فارسی اخبار ’جہاں نما‘ کے اردو ضمیمہ کو اردو کا پہلا اخبارقرار دیا جو 27مار1822کو منظر عام پر آیا کچھ محققین کلکتہ کے مولوی محمد اکرم کے اخبار کو پہلا اخبار بتا تے ہیں اوراس کا سن اشاعت1810بتاتے ہیں ۔’جامِ جہاں نما‘ نام سے ایک اخبار میرٹھ سے بھی شائع ہو تا تھا پہلے یہ اخبار’ جامِ جمشید ‘کے نام سے نکلتا تھا ۔ زیادہ ترمحققین ’جام جہاں نما‘ کلکتہ کو ہی اردو کا پہلا اخبار مانتے ہیں۔ ایس سی سانیال نے بھی اپنی تحقیق اور کا فی عرق ریزی کے بعد یہ ثابت کیا کہ جامِ جہاں نما1822کو پہلی بار ایک اردو اخبار کی حیثیت سے سامنے آیا کلکتہ جرنل 8مئی اور 22جون 1822کے حوالہ سے انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہـ’ جامِ جہاں نما’ کے اردو کے چھ شماروں کے بعد یہ اخبار مکمل فارسی اخبار ہو گیا تھا۔ ماہنامہ آجکل دہلی جون 1963کے شمارے میں رنجن بھٹا چاریہ نے بھی ایس سی سانیال کے دعوے کی تصدیق کی ہے ۔ پاکستان کے صحافی اور محقق ڈاکٹر طاہر مسعود نے اپنی کتاب’ اردو صحافت انیسویں صدی میں’ اردو کے پہلے اخبار کے مسئلہ تفصیل سے بحث کی ہے۔ ایک اور پاکستا نی محقق ڈاکٹر عبداسلام خورشید نے بھی اپنی کتاب’ صحافت پاکستان و ہند ‘ جان بل کلکتہ کے حوالہ سے’ جامِ جہاں نما ‘ کے اجرا ء کی تاریخ 27مارچ 1822 ہی کا تعین کیا ہے۔ اس اخبار کے مالک ہری دت تھے جو بنگالی تھے اور ایڈیٹرمنشی سداسکھ لال تھے جو آگرہ یو پی کے رہنے والے تھے ۔ اردو کا پہلا اور مکمل اخبار کسے مانا جا ئے محققین میں یہ بحث کافی پرانی ہے۔
‘جامِ جہاں نما ‘ کو پہلا اخبار مانا جا ئے تو اردو صحافت کے دوسو سال رواں ماہ 27مارچ 2022کو پورے ہو رہے ہیں۔ اردو صحافت کی یہ 200سالہ زرّیں تاریخ جہاں سرفروشی ، قربانی ،حق گوئی اور آبروئے قلم کی بے مثال تاریخ ہے یہ اردو زبان کے سیکو لر کردار کی بھی گواہ ہے ۔ اردو صحافت نے جب آنکھیں کھولیںمغل سلطنت کی سانسیں اکھڑ رہی تھیںاور انگریز ی استعمار کا دائرہ روز وسیع ہو رہا تھا اور اردو صحافت بھی پروان چڑھ رہی تھی لیکن اس ماحول آنکھیں کھو لنے والی اردو صحافت نئے حکمرانوں سے آنکھیں ملانے کی ہمّت رکھتی تھیں ، بغاوت اس کے خمیر میں شامل تھی اور غلامی کی زنجیروں سے آزادی کیلئے قل شمشیر کیساتھ قلم سے بھی جہاد جاری تھا اسی لئے اردو اخبارات کے صحافیوں کو قید وبند کی صعوبتوں اور اخبارت کی ضبطی سے واسطہ رہا اسی کے نتیجہ میں’ دہلی اردو اخبار، کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر کو سزائے موت دی گئی اور انگریزی استعمار کے ہاتھوں شہادت کایہ پہلا اعزاز بھی اردو صحافت کے حصہ میں آیا۔ اسی زمانہ میں انگریزوں کیخلاف ‘صادق الاخبار’ نے بھی کچھ کم نہیں لکھا اور کچھ کم نہیں چھا پا ۔اس اخبار نے 35علماء کے دستخط سے جا ری وہ فتویٰ شائع کیا جس میں انقلابیوں کی جنگ کو عین جہاد بتا یا گیا تھا چنانچہ جنگ آزادی ناکام ہو نے کے بعد اخبار کے ایڈیٹرجمیل الدین عالی گرفتار کر لئے گئے 3سال کی سزا سنائی گئی۔انگریزوں کی چیرہ دستیوں کیخلاف جن اخبارات نے جرائت بیباکی ،بے جگری اور بہادری کا مظاہرہ کیا ان میں ’منشی نول کشور کا اودھ اخبار لکھنؤ‘ آگرہ کا ڈاکٹر مکندلال کا ’بغاوتِ ہند‘ اجمیر سے منشی اجو دھیا پرساد کا ’خیر خواہِ خلق‘ میرٹھ سے نکلنے والا سیّد ظہیر الدین اورمنشی گنیش لال کا ’جلوئہ طور‘ بنگلورکے منشی محمد شریف کا ’ منشورِ محمدی‘ سردار اندر سنگھ کا ’خالصہ گزٹ‘ منشی محبوب عالم کا ’پیسہ‘ لاہور ،مولانا ظفر علی خاں کا ’زمیندار‘ لاہور،مولانا محمد علی جوہر کا ’ہمدم‘ دہلی،حسرت موہانی کا ’اردوئے معلی‘ مولا نا ابوالکلام آزاد کا ’الہلال‘ اور’البلا غ‘ ’الجمعیۃ دہلی، ’نئی دنیا‘ دہلی، ’انصاری‘ ’ویربھارت‘ ’تیج‘ ’ملاپ‘وغیرہ کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے آزادی سے پہلے انگریزی استعمار سے لو ہا لیا۔ آزادی کے بعد ’الجمعیۃ‘اور ’دعوت‘ کے ایڈیٹران مولا نا محمدفارقلیط اور مولا نا محمد مسلم دارالعلوم دیو بند کے ماہنامہ کے مدیر سیداظہر شاہ قیصر اور ہفت روزہ بیباک سہارنپور کے ایڈیٹر مولانا زکریا اسعدی معاون محمد اسحق حافظ وغیرہ جیسے نہ جانے کتنے اردو اخبارات کے مدیران اور مالکان کو کانگریس سرکار کے عتاب شکار ہونا پڑا اور 153اے کی تلوار ہمیشہ ان کے سروں پر لٹکتی رہی جرم تھا فسادات میں لٹے پٹے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنا اوراردو کے حق کی لڑائی لڑنا ۔
اردو صحافت کو نئے رنگ اور نئے تیور اور نئے مسائل کے ساتھ چار رنگوں میں منظر عام پر لانے والے اردو اخبارات میں ’راشٹریہ سہارا‘ نئی دہلی سر فہرست ہے۔ راشٹریہ سہارا کے علاوہ دہلی اور ملک کی دوسری ریاستوں سے درجنوں روزنامے اور ہفت روزے اور ماہنامے نکل رہے اور بند ہو تے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے قارئین کا دائرہ سمٹ رہا ہے اور اخبارات اور رسائل و جرائد کا سرکولیشن گھٹ رہا ہے خاص طور پر یوپی بہار اور راجستھان میں یہ ریاستیں کبھی اردو کا گھر تھیں اب ہندی بیلٹ کہلاتی ہیں جہاںآ ج اردو اخبارات کی جگہ ہندی روزنامے ور رسائل لے رہے ہیں، چائے کے ہوٹلوں اور دوکانوں کے مالکان نے اردو اخبارات سے ہاتھ کھینچ لیا ہے ،گھروں کی دہلیز سے تو اردو کے اخبارات کبھی کے رخصت کر دئے گئے تھے ۔اردو اگر اخبارات اگر زندہ ہیں تو وہ دینی مدارس کی آکسیجن پر زندہ ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اردو اخبارات اپنے مشن سے ہٹ گئے ہیں یا انہوں نے اردو اور اردو والوں کے مسائل سے چشم پوشی کر لی ہے اردو اخبارات نا مساعد حالات میں بھی اردو اور اردو والوں کے مسائل پر ہی نہیں قومی مسائل اور اقلیتوں کے مسائل پر لکھ رہے ہیں اور قومی اور بین الاقوامی خبروں میں بھی دوسر ی زبانوں کے اخبارات سے پیچھے نہیں ہیں اور اتنا ہی نہیں مجمو عی طور پر اردو اخبارات مزاجاً سیکولر ہیں ان کا قصو ر بس اتنا ہے کہ مظلوم اقلیت کے مسائل کو ترجیح دیتے ہیں جس کو آزادی کے بعد سے ہی فرقہ پرستی کا ہم معنی سمجھ لیا گیا یا سمجھا دیا گیا ہے ۔
اردو اخبارات کے کے نمائندوں کیلئے اردو یا مسلم اقلیت کے مسائل پر سرکاری افسر سے ہی نہیں سیکو لر پارٹیوں کے لیڈروں سے پریس کانفرنس میں سوال کرناخود پر فرقہ پرستی کا ٹیگ لگوانے جیسا ہے۔ مسئلہ اردو اخبارات کا نہیں اصل مسئلہ اردو کی زبوں حالی کا زیادہ ہے ۔ جب زبان ہی سکڑنے لگے گی تو اس زبان کے اخبارات کہاں ٹکیں گے۔ پہلے اردو کوہم نے گھروں سے نکالا اور نسلوں کو یہ کہہ کر اردو سے نابلد رکھا کہ اردو پڑھ لکھ کر کون سی نوکری ملے گی اور اس طرح ہماری نسلیں اردو کے حوالہ سے گونگی اور بہر کردی کر د ی گئیں ان کی زبان ہی نہیں ان کی سماعتیں بھی اردو سے نا آشنا ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اردو سے نہیں اپنے مشترکہ کلچر ، ثقافت اور گنگا جمنی تہذیب کے صدیوں کے ورثہ سے محرم کر دیا ہے ۔کہنے کو دہلی یو پی اور بہار میں اردو کو دوسری سرکار زبان کا درجہ حاصل ہے اردو اساتذہ کی اور مترجمین کی اچھی خاصی تعداد سرکاری ملازمتوں میں ہے اردو اکیڈمیاں ہیں، ہر ضلع میں خیر سے سو دوسو شاعر ہو نے کا دعویٰ کر نے والے بھی مل جا ئیں گے شعری نشستیں ہو تی ہیں، مشاعروں کے پنڈال بھی سجتے رہتے ہیں، سیمیناروںدانشوری کے جو ہر بھی دکھا ئے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پہلے اردو کو گھر سے در بدر کیا اب ہم نے قبرستان ، مسا جد اور خانقاہوں میں بھی اس کیلئے جا ئے اماں نہیں چھوڑی ، زبان کی بقاء ہی پر سوال کھڑے ہیں تو اس زبان کی صحافت کے حال اور مستقبل بھی کی بقاء پر بھی سوالیہ نشان لگے گا۔ بلاشبہ ہمیں اردو صحافت کے ماضی پر فخر ہو نا چا ہیے تاہم حال اور مستقبل کی فکر بھی لازمی ہے۔
اردو صحافت کے ماضی ،حال اور مستقبل کا اجمالی جائزہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS