ہر حال میں خوش

0

حمنہ کبیر (وارانسی)
مبارک ہو! اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سالانہ سروے ’’ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ‘‘ میں ہندوستان نے 136 واں مقام حاصل کیا ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ ہم ہندوستانی 136 واں مقام حاصل کرنے پر بھی اس بات سے خوش ہیں کہ شکر ہے 137ویں پوزیشن پر نہیں آئے۔ ویسے اس سروے کے نتائج میں ہمیں شکوک وشبہات ہیں۔
ذرا سوچیں جس ملک کے وزیراعظم آپدا میں بھی اوسر ڈھونڈ لیں ، اس ملک کے عوام بھلا ناخوش رہیں گے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب ہر وقت ہنستے مسکراتے رہتے ہیں۔ کبھی دیکھا ہے کہ نوٹ بندی ، کرونا ، بے روزگاری وغیرہ سے پریشان حال عوام کو دیکھ کر ان کے ماتھے پر ذرا شکن آئی ہو۔ ویسے تو یہ سروے کسی ملک کی جی ڈی پی، صحت مند زندگی، سماجی تعاون، اپنی پسند کے مطابق کیریئر، مذہب، کھانا ،کپڑا وغیرہ منتخب کرنے کی آزادی، آپ کی خوشی کو متاثر کرنے والی مختلف شعبوں میں پھیلی ہوئی بدعنوانی وغیرہ کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان مسائل کو ہم گھاس ہی نہیں ڈالتے ہیں۔ جہاں تک بات سماجی تعاون کی ہے تو اس میں ہم ہندوستانی سب سے آگے ہیں۔ جیسے جن کی شادی ہوچکی ہے پاس پڑوس کی ایسی خواتین جی جان سے اس نیک کام میں لگ جاتی ہیں کہ جلدی سے دوسروں کی بھی شادی کرا دی جائے ، دعوتوں میں کھانا اس فراخ دلی سے بنواتے ہیں کہ چاہے بعد میں پھینک دیا جائے لیکن سماجی تعاون کے تحت پوری کوشش ہوتی ہے کہ سب کے حلق تک کھانا پہنچے۔ یہاں تک کہ جو مدد نہیں چاہتا ہے اس کی بھی زبردستی مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ رپورٹ زمینی حقائق سے دور ہے۔ ہمیں ہرگز فکر نہیں اپنی آزادی کی ، تعلیم کی ، معاشی حالت کی، بدعنوانی کی۔صدمہ تو تب ہوتا ہے جب دعوتوں میں کوئی اچھی بوٹی اچک لے، ہم سے بہترین کپڑے پہن لے، پڑوس کا بچہ امتحان میں کامیاب ہوجائے، رشتہ دار خوشحال نظر آئیں ،ان کے فرزند اچھی نوکری پر لگ جائیں وغیرہ۔ اگر ان ساری باتوں کو سروے میں شامل کیا جاتا تو بھی کچھ یقین ہوجاتا۔ ہوسکتا ہے اس سروے نے ملک کے ان شاعروں کی ٹھنڈی اور غمگین آہوں کو ضرور محسوس کر لیا ہو جن کا محبوب انہیں اس حال میں پہنچا کر رفو چکر ہوگیا ہے۔بڑی رازداری سے پھوپھا اور داماد کی بھی ضرور رائے لی گئی ہوگی جو نا خوش رہنے اور نا رہنے دینے میں یقین رکھتے ہیں۔کسی حد تک شرما انکل کی اولاد بھی قصوروار ہے،جو ہر امتحان میں کامیابی حاصل کرکے باقی کے سینوں پر مونگ دلتی ہے۔ ورنہ اس ملک کے عوام جو بات بات پر پارٹیاں اور دعوتیں کرتے ہوں، مہینے میں تین چار تہوار منا لیتے ہوں، خود کنوارے رہتے ہوئے دوسروں کی شادیوں میں خوش دلی سے رقص کر لیتے ہوں، تھالی، تالی اور نعروں سے کرونا بھگاتے ہوں، وہ غمگین اور ناخوش ہیں، یہ ماننے والی بات ہی نہیں ہے۔ جب بھی تعلیم ،روزگار یا مستقبل کی فکر ہماری خوشی میں خلل ڈالتی ہے تو موقع ملتے ہی ہم اس حال کو پہنچانے والے سیاستدانوں پر وقتاً فوقتاً اپنی بھڑاس نکال کر خوش ہو لیتے ہیں۔ پڑوس والے انکل کہہ رہے تھے کہ فن لینڈ نے لگاتار پانچویں بار ٹاپ کیا ہے۔ یکسانیت سے بور نہیں ہوتے آپ لوگ۔ہم سالہا سال خوش رہیں تو بیزار ہوجائیں۔ ہمارے وزیراعظم اگر فن لینڈ میں ہوتے تو’نیا پن‘ کے لئے اب تک فِن لینڈ کا نام تبدیل کر کے فَن لینڈ رکھ چکے ہوتے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS