عبیداللّٰہ ناصر
کیا ملک کانگریس مکت کی جانب نہیں بلکہ ایک پارٹی کی نظام کی جانب بڑھ رہا ہے؟کیا ملک میں آئینی جمہوریت اور اس کا سیکولر کردار برقرار رہے گا؟ یہ تمام سوالات اس وقت نہ صرف سنجیدہ سیاسی حلقوں بلکہ عوام میں بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس اور اس کے ہندوراشٹر کے تصور کا حامی طبقہ ان حالات سے خوش ہے تو ملک کے سیکولر کردار اور آئینی جمہوریت کے لیے فکر مند طبقہ کی فکر میں ہر انتخابی نتیجہ کے بعد اضافہ ہوتا جا رہا ہے، خاص کر کانگریس کا یوں رو بہ زوال ہونا انہیں فکر مند کیے ہوئے ہے کیونکہ قومی سطح پر صرف کانگریس ہی فرقہ پرستی کے اس طوفان کو روک سکتی ہے لیکن خود اس کی کشتی میں اتنے چھید ہوچکے ہیں کہ اس کا بچ پانا ہی محال دکھائی دے رہا ہے۔
حالیہ اسمبلی انتخابات میں اتر پردیش میں کانگریس کو لے کر سیاسی پنڈت کسی خوش فہمی میں نہیں مبتلا تھے لیکن اترا کھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور میں کانگریس کے لیے کافی امیدیں دکھائی دے رہی تھیں لیکن جب نتیجے سامنے آئے تو کانگریس چاروں خانہ چت دکھائی دی اور اگلے دو برسو ں میں جن ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں گے، ان میں بھی اس کے لیے کوئی امکان فی الحال نہیں دکھائی دے رہا ہے تو کیا کانگریس مکت بھارت کا جو سپنا مودی جی نے دکھایا تھا وہ شرمندۂ تعبیر ہونے جا رہا ہے؟پارٹی آج جن حالات میں ہے، اس کو دیکھتے ہوئے تو یہی لگتا ہے کہ کانگریس قصہ پارینہ بن جائے گی۔کانگریس کے پاس ٹرمپ کے اِکّا کے طور پر پرینکا گاندھی تھیں لیکن اترپردیش میں ان کی محنت پر جس طرح پانی پھرا ہے وہ لمحۂ فکریہ ہے۔گزشتہ پارلیمانی الیکشن کے بعد سے ہی پرینکا گاندھی جس طرح اترپردیش میں سرگرم ہوئی تھیں اور جس طرح انہوں نے قدم قدم پر یوگی حکومت کو چیلنج کیا تھا، وہ چاہے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران یوگی حکومت کی بربریت کے خلاف ہو یا ہاتھرس کی بیٹی کا معاملہ ہو یا لکھیم پور کھیری کے کسانوں کو کار سے کچل دینے کا معاملہ ہو یا اور بھی تمام معاملات ہوں جب اکھلیش یادو اور مایاوتی اپنے اپنے محلوں میں گھسے تھے تو پرینکا گاندھی اور کانگریس کے ریاستی صدر اجے کمار للو اور پارٹی کے ہزاروں کارکن پولیس کی لاٹھیاں کھا رہے تھے، جیل جا رہے تھے، مقدمہ جھیل رہے تھے لیکن بے رحم سیاست نے اس کا صلہ یہ دیا کہ وہ صرف دو سیٹیں جیت سکی اور اس کا ووٹوں کا تناسب بھی بہت گھٹ گیا۔ اتنا ضرور ہے کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پرینکا گاندھی الیکشن بھلے ہی ہار گئی ہوں لیکن انہوں نے عوام کا دل جیت لیا ہے جس کا فائدہ پارٹی کو پارلیمانی الیکشن میں ملے گا۔ اس شکست فاش کے بعد کانگریس نے اپنے پانچوں ریاستی صدور سے استعفیٰ لے لیا ہے لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے، ملک کا جو سیاسی ماحول اور سماجی حالات ہیں، ان میں کانگریس کو اوپر سے نیچے تک بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے صرف سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی لڑائی بھی لڑنی ہوگی تاکہ اس نے عوام کے ذہنوں میں فرقہ پرستی، نفرت اور تشدد کا جو زہر بھر دیا ہے، اسے صاف کیا جا سکے۔ آج صرف راہل گاندھی اکیلے اپنے دم پر یہ لڑائی لڑ رہے ہیں، انہیں اس جنگ کے لیے ایک فوج تیار کرنی ہوگی جو موجودہ کانگریس کے ڈھانچہ میں ممکن نہیں دکھائی دیتی۔ پارٹی میں انقلابی تبدیلیاں لا کر اسے گاندھی نہرو کے راستہ پر ڈال کر ہی نہ صرف پارٹی کو بلکہ ملک کو بھی تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔
اسمبلی انتخابات میں خلاف توقع نتائج نے سبھی سیاسی پنڈتوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے، کسی کو امید نہیں تھی کہ اتنی زبردست کسان تحریک، اتنی بے لگام گرانی، بے روزگاروں کی اتنی بڑی فوج کھڑی ہو جانے اور کورونا کی دوسری لہر میں ہوئی حکومت کی زبردست لاپروائی کے باوجود بی جے پی چار ریاستوں اترپردیش، اترا کھنڈ، گوا، منی پور میں اپنی سرکار بنا ئے گی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی کو اتنی شاندار کامیابی ملے گی۔بی جے پی کی اتنی شاندار کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ اس کے بڑے سے بڑے لیڈر سے لے کر اس کے زمینی سطح کے عام کارکنوں کی دن رات کی محنت ہے۔ اپنی تقریباً100سال کی تاریخ میں آر ایس ایس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے جس دلجمعی سے کام کیا ہے، اس کی بھرپور تعریف نہ کرنا نا انصافی ہوگی، ان کی یہ محنت، لگن، مقصد کے حصول کے لیے مکمل خود سپردگی دوسری پارٹیوں کے لیے نمونہ ہے اور آج جب بی جے پی انتخابی کامیابیوں کی لہلہاتی فصل کاٹ رہی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔لیکن مقصد کے حصول کے لیے آر ایس ایس نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ نیک تو کیا شرمناک ہی کہا جائے گا اور مستقبل قریب میں ملک کے لیے بیحد خطرناک ہوگا۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قول تھا کہ نیک مقصد کے حصول کے لیے ذرائع بھی نیک ہونے چاہئیں لیکن آر ایس ایس نے صہیونی راستہ اختیار کیا ہے، کامیابی ذرائع کو صحیح بنا دیتی ہے۔ بی جے پی بلکہ آر ایس ایس نے کامیابی کے لیے سماجی انتشار، فرقہ پرستی، نفرت اور تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے جس سے وہ توکامیاب ہو رہی لیکن ملک بتدریج ہارتا جا رہا ہے۔
پانچ اسمبلیوں کے ان انتخابات میں سبھی مخالف پارٹیوں کی طنابیں اکھڑ گئی ہیں۔2024 میں پارلیمانی الیکشن سے پہلے متعدد ریاستوں کی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں گے اور ان میں سے زیادہ تر میں بی جے پی کا مقابلہ کانگریس سے ہوگا اور کانگریس کی آج جو حالت ہے، اس میں بڑے سے بڑے خوش فہم کو یہ امید نہیں ہے کہ کانگریس کہیں بھی کسی ریاست میں بھی کامیابی حاصل کر سکے گی۔بی جے پی کے پاس لا محدود وسائل ہیں، اس کے پاس تقریباً پانچ ہزار کروڑ کا فنڈ ہے، لاکھوں کارکنوں کی فوج ہے، میڈیا پر اس کا قبضہ ہے، تمام آئینی اداروں اور سرکاری ایجنسیوں پر آر ایس ایس کی شاکھاؤں سے نکلے کارکن براجمان ہیں جو اسے کچھ بھی کرنے کی چھوٹ دیے ہوئے ہیں جبکہ مخالفین پر آئے دن سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، پولیس اور دیگر محکموں کے چھاپے پڑتے رہتے ہیں، عدالتیں زیادہ معاملات میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتی ہیں یا پھر تاریخ پر تاریخ دے کر انہیں تھکا دیتی ہیں۔ ادھر زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں مسلمانوں سے اتنی نفرت بھر دی گئی ہے کہ وہ ہر طرح کی مشکلات گرانی، بے روزگاری، سماجی انتشار، گھر، محفوظ سرحدوں، عالمی سطح پر ملک کی بدنامی، سب سے بے پروا محض مسلموں کو ٹائٹ رکھنے کے مقصد سے اسے ووٹ دیتے رہتے ہیں۔کبھی بی جے پی برہمنوں اور بنیوں کی پارٹی سمجھی جاتی تھی، آج پسماندہ طبقہ اور دلت اس کے سب سے مضبوط ووٹ بینک ہیں اور انہی کے بل پر اس نے اترپردیش میں مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کو قصہ پارینہ بنا دیا ہے اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کو دھول چٹا دی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگلے اسمبلی الیکشن تک سماج وادی پارٹی کا حشر بھی بی ایس پی جیسا ہوسکتا ہے کیونکہ مسلم اور یادو کے بل پر کھڑا سماجوادی پارٹی کا تمبو اکھڑ چکا ہے۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں اگر 20فیصد مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کو یکطرفہ ووٹ نہ دیا ہوتا تو اسے 40-50 سیٹوں سے زیادہ نہ ملتیں کیونکہ نصف سے زیادہ یادوؤں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے دیگر پسماندہ ذاتوں اور برادریوں کی تو بات چھوڑیے۔
اکھلیش یادو نے ذاتوں، برادریوں کی اچھی ریاضی بٹھانے کی کوشش کی تھی مگراتر پردیش میں جو کسان تحریک کا مرکز تھا وہاں راشٹریہ لوک دل اور مشرقی اتر پردیش میں اوم پرکاش راج بھر اور سوامی پرساد موریہ کو ساتھ لے کر انہوںنے پسماندہ برادریوں کا مضبوط سیاسی گٹھ جوڑ تیار کیا تھا لیکن ہندوتو کی آندھی میں وہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا، صرف مسلمان سماج وادی پارٹی کے وفادار رہے۔ حالانکہ اکھلیش یادو گزشتہ پانچ برسوں میں مسلم مسائل اور مسلمانوں پر ہوئے مظالم کے خلاف تحریک چلانا تو در کنار ان کے مسائل سے چشم پوشی ہی کرتے رہے لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ سماج وادی پارٹی نے پسماندہ ذاتوں کا اچھا مورچہ تیار کر لیا ہے اور ان کا تنظیمی ڈھانچہ بھی گاؤں گاؤں تک پھیلا ہوا ہے اور وہی بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے، اسے صد فیصدنہیں تو 95فیصد تک ووٹ دیا لیکن ’’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘‘۔
بہوجن سماج پارٹی کا یہ زوال دلت تحریک کا خاتمہ ہے، وہ بھی ڈاکٹر امبیڈکر کی قائم کردہ ریپبلکن پارٹی کے انجام کو پہنچ چکی ہے اور اس کی واحد ذ مہ دار مایا وتی ہیں۔ انہوں نے اپنے تکبر اور لالچ میں کانشی رام کے خوابوں کو چکنا چور ہی نہیں کیا بلکہ دلتوں کو منو وادیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ آج دلت طبقہ مسلم دشمنی میں بھلے ہی آر ایس ایس کی گود میں بیٹھ گیا ہے لیکن مستقبل میں وہ اس کی کیا قیمت ادا کرے گا، اس کا اندازہ ابھی حال ہی میں رونما ہوے دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک دلت نوجوان جتیندر میگھوال کو اس لیے چھرا مار کر قتل کر دیا گیا کہ وہ مونچھیں رکھے ہوئے تھا۔ یہ واقعہ گجرات کے کسی ضلع کا ہے اور ایک دوسرے نوجوان بلرام اہروار کو ہولی کی آگ لگانے کے دوران اعلیٰ ذات کے ہندو نوجوان کے برابر کھڑے ہونے کی پاداش میں اسی آگ میں دھکیل دیا گیا، یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع کا ہے۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ گڈریے سے ناراض بھیڑوں نے بھیڑیے کی ماند میں پناہ لے لی ہے۔ اس کی وجہ منو واد کا بنیادی کریکٹر ہے۔ آج وہ اپنی سیاسی غرض کے تحت بھلے ہی دلتوں اور پسماندہ طبقوں کی منھ بھرائی کر رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں مسلم دشمنی بھر کر اس کی سیاسی فصل کاٹ رہے ہیں لیکن ان کا بنیا دی کریکٹر نہیں تبدیل ہو سکتا، بس موقع کے منتظر ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک ہندو راشٹر کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، آئین ہند سے سیکولر لفظ ہٹائے بنا سیکولرزم کو اذکار رفتہ کیا جا چکا ہے۔ آئینی جمہوریت اور ہندوستانیت کو بچانے کی ذمہ داری سبھی پارٹیوں کی ہے لیکن یہ کانگریس کی تاریخی ذ مہ داری ہے کیونکہ ملک کے موجودہ حا لات آنے والے بہت بڑے خطرہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو نہ صرف خانہ جنگی بلکہ نسل کشی تک جاسکتا ہے۔ جینو سائڈ واچ کی حالیہ رپورٹ اور اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف منظور ہوئی قرار داد محض ادبی مباحثہ کے لیے نہیں ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]