حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ افسوسناک کیوں ہے؟

0

عبدالماجد نظامی

حجاب کے مسئلہ پر کرناٹک ہائی کورٹ کی سہ رکنی بنچ نے اپنا جو فیصلہ سنایا ہے، اس سے ملک کا ہر معقول اور انصاف پسند طبقہ حیرت زدہ ہے۔ حیرت اور فکر مندی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلہ کے دور رس نتائج مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی بچیوں اور معلّمات کی زندگی پر مرتب ہوں گے۔ نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے سرکار نے ملک کے اندر فرقہ واریت کے زہر کو جس طرح سے ہر گوشۂ حیات تک پہنچانے کا کام کیا ہے، اس کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا اور تعلیم گاہوں کے علاوہ روزمرہ کے معمول میں بھی مسلم بچیوں اور عورتوں کو منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت کی ذمہ داری یہ تھی کہ ایسے زہر آلود ماحول میں اپنے فیصلہ کے ذریعہ سیکولرزم کی اس اسپرٹ کو زندہ کرتی جس کے لیے ہمارا یہ ملک ہمیشہ سے معروف رہا ہے۔صدیوں سے اس ملک کی خواتین حجاب اور گھونگھٹ کو برتتی آئی ہیں اور حجاب یا گھونگھٹ کی وجہ سے کبھی کوئی سماجی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، کیوں کہ اس کو حیا، عفت و پاکیزگی اور سنسکار کی علامت مانا گیا ہے۔ یہ صرف مغرب زدہ بیمار ذہن کی اپج ہے کہ حجاب خواتین کی آزادی کو روکتا ہے یا ان کی عقل و فکر کی نشو و نما میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ حجاب کا نام گرچہ الگ الگ مذہب میں مختلف رہا ہو لیکن شاید ہی کوئی مذہب ہو جس نے کسی نہ کسی صورت میں حجاب کو عملی طور پر برتنے کی ترغیب نہ دی ہو۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ عورتیں جو اپنی آزاد منش زندگی گزار کر مایوس ہوجاتی ہیں اور روح کی بے چینی کو محسوس کرکے روحانیت کی تلاش میں نکلتی ہیں اور مذہبی تعلیمات کا مطالعہ کرتی ہیں تو تنگ اور نیم برہنہ لباس کو خیر باد کہہ کر ایک پروقار لباس اختیار کرلیتی ہیں جس میں جسم کو مکمل طور پر ڈھک کر رکھنا ان کی پہلی ترجیح بن جاتی ہے۔ یہ معاملہ ہر مذہب و ملت کی خواتین پر یکساں طور سے لاگو ہوتا ہے۔ چاہے وہ یہودیت، عیسائیت، اسلام کا معاملہ ہو یا پھر دیگر غیرآسمانی پیغامات پر مبنی مذاہب کا، ہر جگہ باحجاب اور روحانیت کی جانب گامزن خواتین کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک عزیز میں بالی ووڈ تک کی پررونق اور زرق برق سے بھری زندگیوں کو الوداع کہنے والی کامیاب ترین اداکاراؤں میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے۔ اگر حجاب کسی عورت کی حقیقی آزادی میں رکارٹ بننے کا ذریعہ ہوتا تو کیا یہ اداکارائیں کبھی اس کو بخوشی قبول کرکے روحانیت کی زندگی کو اختیار کرتیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سائنٹفک ڈھنگ سے بھی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک خاتون کا حجاب اختیار کرنا یا اپنے جسم کو گھٹیا نگاہوں سے محفوظ رکھنا اتنا ہی اہم اور ضروری ہے جتنا کہ خراب موسم کی صورت میں اس کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا ایک فطری انسانی حس اس کا تقاضہ کرتی ہے۔ ایسی صورت میں یہی کہا جانا عقلمندی ہوگی کہ حجاب کا اختیار کرنے کا رجحان دراصل انسان کے فکری ارتقاء کا اعلیٰ ترین مقام ہے کیونکہ انسان برہنہ پیدا ہوتا ہے اور جوں جوں وہ زندگی کے مراحل طے کرتا ہے، اپنے لیے ساتر لباس کو پسند کرتا ہے۔ برہنگی یا نیم برہنہ پن کی طرف لوٹنا دراصل بچکانہ فکری مرحلہ کی طرف عود کرنے کے مترادف ہے۔ مغرب سے ہر معاملہ میں مرعوبیت کا ہی یہ مرض ہے کہ ہم اپنی خواتین کے لیے بھی مغربی فلسفہ کی صرف اسی تشریح کو قبول کرتے ہیں جس میں عریانیت اور اخلاق باختگی کے پہلو نکلتے ہوں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مغربی ممالک میں بھی خواتین کی ترقی و بلندی کا راز ان کی نیم عریاں طرز حیات سے نہیں بلکہ ان کی علمی و فکری ترقی سے وابستہ ہے۔ اگر ہم واقعی ایک ایسا سماج بنانا چاہتے ہیں جس میں خواتین بھی مرد کے شانہ بشانہ اپنا کردار ادا کریں تو ان کے لیے ایسے وسائل مہیا کروانا لازم ہے جو ان کی عقل و فکر کی نشو و نما میں معاون ہو اور جو خواتین عفت و حیا کے دائرہ میں رہ کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتی ہوں، ان پر اخلاق اور کردار کا بس وہی ایک مغربی معیار نہ تھوپ دیا جائے جو فلم، ٹیلی ویژن اور دیگر میڈیا ذرائع سے شب و روز ہمارے دل و دماغ میں پیوست کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو اس کے بڑے سنگین اثرات ان خواتین کی زندگی پر مرتب ہوں گے جو حجاب کے ساتھ اپنی تعلیم و ترقی کا سفر کرنا چاہتی ہیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کا کتنا منفی اثر پڑے گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اسی عدالت نے محض وقتی طور پر حجاب اور دیگر مذہبی علامتوں کے استعمال پر پابندی لگائی تھی تو اس کا بہانہ بناکر کئی اسکول اور کالجوں نے باحجاب مسلم بچیوں کے داخلہ پر روک لگادی اور ان کی تعلیم کو متاثر کردیا، انہیں نفسیاتی طور پر عجیب ابتلاء و آزمائش میں ڈال کر رکھ دیا اور جگہ بہ جگہ ان کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات رونما ہوئے۔ اب جب کہ باضابطہ یہ فیصلہ آ چکا ہے تو اس کے کس قدر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، ان کا سمجھنا قطعاً مشکل نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے اب اس ملک میں عدالتیں دستوری قدروں کی محافظ نہیں رہ گئی ہیں بلکہ ایک خاص قسم کی آئیڈیالوجی کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں جو کسی بھی طرح کے تہذیبی و ثقافتی تنوع کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور ہر شخص کو ایک ہی رنگ میں رنگنے میں یقین رکھتی ہے۔ یہ آئیڈیالوجی اس ملک کی صدیوں پرانی تہذیب کے لیے سخت مضر ہے۔ ہندوستان کے معاشرہ میں تنوع کبھی بھی ایک مسئلہ نہیں رہا ہے، البتہ اس تنوع کو ختم کرنے کی کوششوں سے بڑے مسائل ضرور پیدا ہو رہے ہیں۔ عدالت نے حجاب کو اسلام کا جزو لازم نہ قرار دیتے ہوئے جس قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے، اس سے ایک بات اور ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے جج صاحبان کو اسلام کی تعلیمات کے سلسلہ میں ادنیٰ درجہ کی سمجھ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ٹریننگ چونکہ مذاہب کی تعلیمات کے بارے میں نہیں ہوئی ہے، اس لیے انہیں اس دائرہ میں داخل ہوکر اپنا وقار مجروح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہیں یہ بھی غور کرنا چاہیے تھا کہ ان کے اس فیصلہ سے مسلم بچیوں کی تعلیم و ترقی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جن بچیوں کو اس فیصلہ کی روشنی میں اسکولوں اور کالجوں میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے گھر بیٹھ جائیں گی یا وقت سے پہلے ان کی شادیاں کرا دی جائیں گی، ان کی تعلیمی رکاوٹ کے لیے کون ذمہ دار ہوگا؟ کیا عدالت کا یہ فیصلہ کسی بھی طرح سے ترقی پسند کہا جاسکتا ہے؟ مسلم بچیاں پہلے کے مقابلہ اب اسکول اور کالجوں کی طرف زیادہ رخ کر رہی تھیں کیونکہ حجاب انہیں آزادی، سکون اور تحفظ کا احساس فراہم کرتا تھا۔ کرناٹک کی عدالت نے اپنے ایک سو انتیس صفحات پر مشتمل فیصلہ میں جن اعلیٰ مقاصد کا ذکر کیا ہے، نتیجہ کے اعتبار سے یہ فیصلہ ان کے بالکل برعکس ثابت ہوگا۔ شکر ہے کہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں اعلیٰ سماجی و ملکی مقاصد کو دھیان میں رکھ کر ایک ترقی پسند فیصلہ سناتا ہے یا کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھ کر بابری مسجد سے متعلق فیصلہ کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ جہاں تک حجاب کے بارے میں اسلام کی تعلیم کا تعلق ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سیکولر عدالتیں کیا کہتی ہیں۔مسلم خواتین قرآن و سنت کی تعلیمات اور ہدایات کو ہمارے جج صاحبان سے زیادہ بہتر سمجھتی ہیں اور قرآن فہمی کے سلسلہ میں عدالت کی تفہیم و تشریح چنداں حیثیت نہیں رکھتی۔ جو خواتین اسلام کی رہنمائی کو سمجھتے ہوئے باحجاب رہنا چاہتی ہیں وہ بدستور اس پر عمل پیرا رہیں گی۔ البتہ ان کی تعلیم و ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے اس فیصلہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS