یوکرین میں روس کا حملہ اب 18ویں دن میں داخل ہورہا ہے۔ یوکرین کے کئی شہروں کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین بات چیت ابھی بھی تعطل کا شکار ہے۔ جرمن چانسلر اولاف شولج اور فرانس کے صدر ایمیونل میکروں بھی ولادیمیر پوتن کے ساتھ نئے دور کی بات چیت کررہے ہیں۔ ادھر یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی نے اپنے سب سے تازہ ویڈیو پیغام میں روسی ماؤں سے اپنے بچوں کو جنگ کے میدان میں نہیں بھیجنے کی اپیل کی۔ اس سب کے درمیان اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ اب تک 25لاکھ سے زیادہ یوکرینی خواتین، بچے اور مرد پڑوسی ممالک میں پناہ گزیں ہوچکے ہیں۔ ہندوستان نے اس سنگین انسانی صورت حال پر بغیر دیر کیے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن یہ ایکشن کون لے گا؟ ظاہری طور پر نظریں امریکہ پر لگی ہیں جسے یوکرینی صدر زیلینسکی گزشتہ دو ہفتوں میں ناٹو کے ساتھ مل کر جنگ بھڑکانے کے لیے کئی بار کٹہرے میں کھڑا کرچکے ہیں۔ امریکہ نے اب روسی بارڈر پر اپنے 12ہزار فوجیوں کو روانہ کیا ہے جو لٹویا، ایسٹونیا، لیتھوآنیا اور رومانیہ جیسے پڑوسی ممالک میں تعینات ہوکر روس کا محاصرہ کریں گے۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی امریکہ اپنی بات پر قائم ہے کہ ان کا ملک یوکرین میں جنگ نہیں لڑے گا کیوں کہ ایسا ہونے پر تیسری عالمی جنگ کے خطرہ میں اضافہ ہوجائے گا۔
کیا امریکہ کو واقعی تیسری عالمی جنگ کی فکر ستا رہی ہے؟ یا اس فکر کے پیچھے چھپ کر دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور اپنی کمزوری کو چھپا رہی ہے؟ دراصل گزشتہ 18دنوں کی صورت حال اب ایسے کئی واقعات کی دستاویز بن گئی ہے جو اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن مسلسل پوتن کے سامنے کمزور پڑتے جارہے ہیں۔
یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ کوئی بھی سپرپاور بالکل درست اور قادر مطلق نہیں ہوتی، لیکن یہ بات گلے نہیں اترتی کہ یوکرین میں امریکہ سیکڑوں ملین ڈالر کے ہتھیار بھیج سکتا ہے، لیکن اپنے فوجیوں کو نہیں بھیج سکتا۔ اس نے وسیع اقتصادی پابندیوں کو عائد کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد کا قیام کیا ہے اور تکنیکی کمپنیوں اور فیفا اور اولمپک جیسی عالمی تنظیموں کی روس کی ثقافتی علیحدگی کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔ لیکن اگر دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور سب سے مضبوط معیشت ہونے کے بعد بھی امریکہ روس کو جنگ سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوپایا تو ایسی طاقت کا کیا فائدہ؟ کسی دیمک کی طرح روس ہر دن یوکرین کے نئے علاقوں میں دراندازی کررہا ہے اور امریکہ صرف بیان جاری کررہا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ سپرپاور کہلانے کا حق اسی ملک کو ملنا چاہیے جو اپنی جنگ کے انتخاب کی جرأت کا اظہار کرسکے اور مشکل متبادل ہونے کے بعد بھی مدد سے پیچھے نہ ہٹے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اب تک یہی نعرہ بلند کرتا رہا ہے کہ اس نے کبھی جنگ نہیں ہاری اور نہ ہی دشمن سے کبھی سمجھوتہ کیا۔ روس-یوکرین تنازع ان دونوں دعوؤں کو غلط ثابت کررہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روس نے یوکرین پر جنگ تھوپ کر اس کی خودمختاری اور بین الاقوامی نظام کی خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن کیا گزشتہ کئی دہائیوں سے ناٹو کی فوج کو روس کے اعتراضات کے باوجود اس کی سرحدوں میں دھکیلنا غیردوراندیشانہ اور ہیکڑی دکھانے والا قدم نہیں تھا؟ روس گزشتہ ایک سال سے یوکرین کی سرحدوں پر اپنی فوج بڑھا رہا تھا، تب امریکہ کیا کررہا تھا؟ ویتنام، عراق، جنوبی اور وسطی امریکہ، مشرق وسطیٰ، افغانستان میں مداخلت اگر مکاری نہیں تھی تو پھر امریکہ یہی قدم یوکرین میں اٹھانے سے کیوں ہچکچا رہا ہے؟ دراصل امریکہ اور ناٹو کا رُخ گزشتہ آدھی صدی سے ان سبھی حقیقتوں اور امکانات کو نظرانداز کرنے کا رہا ہے۔ یوکرین میں متبادل کی کمی اسی غیردوراندیشی کا نتیجہ ہے جس نے مغرب کو اب ایسی حالت میں لاکھڑا کیا ہے جہاں یوکرین کے حالات اب اس کے کنٹرول سے باہر ہوچکے ہیں۔
اس کو روس کے خلاف اب تک اٹھائے گئے اقدامات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ امریکہ اور یوروپ نے روس کے خلاف معاشی جنگ چھیڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی ایک پینچ ہے۔ امریکہ کو اگر دنیا کی قیادت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ یہ بتائے کہ تیل کی معیشت یا آب و ہوا میں تبدیلی جیسے بحران سے نمٹنے کی اس کی عالمی پالیسی کیا ہے؟ بہت لوگوں کو یہ موضوع سے ہٹی ہوئی بات لگ سکتی ہے، لیکن روس پر پابندی عائد کرکے امریکہ دراصل اپنی ہی ناکامی پر پردہ ڈال رہا ہے کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے ان دونوں محاذ پر ایسا کچھ نہیں کیا کہ دنیا کے روس پر انحصار کو ختم یا کم ہی کیا جاسکے۔ تیل آج دنیا کی ضرورت ہے اور گیس یوروپ میں ’آکسیجن‘ کی جگہ لے چکی ہے۔ اس لیے روس پر پابندی کا اثر نظر آنے میں تو ابھی کچھ وقت لگے گا، لیکن بین الاقوامی بازار جس حد تک روس سے ملنے والی توانائی کے وسائل پر منحصر ہے، اس میں یہ پابندیاں روس سے پہلے باقی دنیا کو ہی پریشان کریں گی۔
اس لیے اب جب کہ کہا جارہا ہے کہ امریکہ ایک ایٹمی سپرپاور کے ساتھ ممکنہ ٹکراؤ میں پھنس گیا ہے، تو یہ بھی جان لیجیے کہ یہ مکمل نہیں بلکہ آدھی حقیقت ہے۔ پوری حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اب ایک نہیں، بلکہ دو دو ایٹمی سپرپاور کے درمیان پھنس گیا ہے اور امریکہ کا یہ دوسرا سردرد ہے چین۔ روس اور چین گزشتہ کافی وقت سے تیزی سے ایک ساتھ کام کررہے ہیں۔ یوکرین کے معاملہ میں چین نے کھل کر روس کی حمایت کی ہے۔ تو کیا یوکرین میں آگے بڑھنے سے جھجھک رہے امریکہ کو خدشہ ہے کہ یہ دونوں مل کر اس کے خلاف دوہرے حملے کرسکتے ہیں۔ اس خدشہ کو بالکل جھٹلایا بھی نہیں جاسکتا۔ امریکہ کے سامنے یوروپ اور انڈو-پیسفک میں ایک ساتھ دو جنونی طاقتوں سے اپنی امیج کے خاتمہ کا سنگین خطرہ کھڑا ہوگیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں چین نے یوروپ اور مشرق وسطی میں فوجی مشق کی ہے۔ ایسے میں اس کے ساتھ بھڑنے کا مطلب ہوگا صرف ایشیا میں ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر مقابلہ کرنا۔ اب یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ یوکرین میں امریکہ کا کمزور ردعمل کیا تائیوان کو لے کر چین کے منصوبوں کو کوئی نئی تقویت دینے کا کام کرے گا؟
تو آخر دنیا میں امریکہ کے مستقبل کے لیے اس جنگ کا کیا مطلب ہے؟ ویسے اس بارے میں ابھی کوئی نتیجہ اخذ کرنا جلدبازی ہوگی، لیکن جو حالات ہیں وہ اس اشارے کے لیے کافی ہیں کہ امریکہ کی طاقت کی بھی حدود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ روس کے خلاف ایک نئی جنگ میں اپنے فوجیوں کو جھونکنے سے انکار کرکے بائیڈن نے امریکہ کے حق میں اچھا فیصلہ لیا ہو۔ آخر دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں دو دہائی لگ گئی تھیں۔ ایسے میں وہ اس تشویش کو جائز ٹھہرا سکتا ہے کہ روس کے خلاف فوج اتارنے کا مطلب ایک لامتناہی لڑائی کی شروعات ہوسکتا ہے۔ لیکن باقی دنیا امریکہ کو لے کر اپنی سوچ بنانے کے لیے آزاد ہے۔ اور وہ سوچ اسی سمت میں مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ ایک ملک جو اپنی اقتصادی طاقت اور جمہوری اقتدار کے دم پر سپرپاور ہونے کا دم بھرتا رہا ہے، وہ گزشتہ آدھی صدی یا اس سے بھی زیادہ وقت کے دوران خود کو سب سے کمزور اور سب سے خراب حالت میں دیکھ رہا ہے۔اور اس کے لیے امریکہ خود ہی ذمہ دار ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
یوکرین میں مداخلت سے ڈر رہا ہے امریکہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS