اپنے ملک کو ہر حال میں آگے بڑھانے کی جستجو رکھنے والے لیڈران حالات سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتے ہیں اور فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع چوکتے نہیں ہیں جیسے 1962 میں کیوبن میزائل کرائسس سے فائدہ اٹھاکر چین نے وطن عزیز ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا جبکہ اس وقت ہندوستان میں ’ہندی چینی بھائی بھائی‘ نعرہ مقبول تھا۔ اب چین زیادہ مستحکم ہو چکا ہے مگر ہندوستان بھی 1962 والا ہندوستان نہیں ہے۔ اس خطے میں اگر کوئی ملک ہر لحاظ سے چین کو جواب دینے کی پوزیشن میں ہے تو وہ ہندوستان ہے، چنانچہ چین کی حرکتوں پر نظر رکھنا ضروری ہے، خاص کر گلوان تنازع کے بعد چین نے ایسی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے کہ اس پر زیادہ اعتماد کیا جائے۔ چین کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ ہندوستان کے پڑوسیوں کو وہ اپنے دائرۂ اثر میں رکھے۔ اس کے لیے وہ ہر ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ نیپال کے علاقے میں چینی فوجیوں کی دراندازی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، اس دراندازی کی خبر کسی اور ذریعے سے نہیں بلکہ نیپالی حکومت کی رپورٹ کے حوالے سے آئی ہے کہ چینی،نیپالی علاقے میں دراندازی کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ نیپالی سرکار نے ریلیز نہیں کی ہے بلکہ اس کے لیک ہو جانے سے یہ پتہ چلا ہے کہ چین کی سیکورٹی فورسز نے نیپال کے علاقے لالنگ جونگ کے مقام پر مذہبی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور سرحد پر مویشی چرانے والے کسانوں کو ایک دائرے تک محدود کر دیا تھا۔ یہی نہیں، چین نے نیپالی علاقے میں ایک نہر اور سڑک بنانے کی بھی کوشش کی تھی۔
نیپال میں چین کی دراندازی باعث تشویش ہے، کیونکہ ایک آزاد اور خودمختار نیپال ہی ہندوستان کا اچھا پڑوسی بن کر رہ سکتا ہے، چین کے زیر اثر نیپال نہیں۔ ہندوستان اور نیپال پڑوسی ہونے کے ناطے ہی ایک دوسرے سے وابستہ نہیں ہیں، ان کے مابین تہذیبی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر بھی تعلقات ہیں۔ دونوں کے مابین ’روٹی اور بیٹی‘ کا رشتہ رہا ہے۔ نیپال کے لوگ ہندوستان کو دوسرا وطن مانتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے لوگوں کو ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کے لیے ویزا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں مگر ادھر کے برسوں میں ایک سے زیادہ نیپالی لیڈروں کا ہندوستان کے تئیں تیور بدلا ہے، انہوں نے ایسی باتوں کو بھی ایشو بنایا ہے جس پر حیرت ہوئی۔ مثلاً: لمپیا دھرا، لیپولیکھ اور کالاپانی کو نیپالی حکومت نے خواہ مخواہ متنازع بنایا۔ ان علاقوں پر کچھتشویش تھی تو وہ اس کا دوستانہ انداز میں اظہار حکومت ہند سے کر سکتی تھی۔ کئی اور باتوں کو بھی نیپال کے ایشو بنانے سے یہ اندازہ ہوا کہ کچھ نیپالی لیڈران خواہ مخواہ ہی ہندوستان کے تئیںتیور دکھاتے ہیں، ورنہ آج بھی نیپال کی اقتصادیات کا بڑی حد تک انحصار ہندوستان پر ہی ہے۔ ہندوستان سے ہی وہ سب سے زیادہ اشیا منگواتا ہے اور اسے ہی سب سے زیادہ اشیا سپلائی کرتا ہے۔ 2020 میں نیپال نے 53.1 فیصد اشیا ہندوستان کو ایکسپورٹ کی تو 2021 میں 68.03 فیصد اشیا اس سے امپورٹ کی مگر چین کے نیپال پر دائرۂ اثر بڑھانے سے یہ صورتحال بدل سکتی ہے اور اس کا اثر ہند-نیپال تعلقات کے ساتھ نیپال کی اقتصادی حالت پر بھی پڑ سکتا ہے۔ نیپال میں چینیوں کی دراندازی پر توجہ وقت رہتے دی جانی چاہیے، کیونکہ چین کی توسیع پسندی کب کیا گل کھلائے گی، کہنا مشکل ہے۔ پاکستان پوری طرح چین کے زیر اثر ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار، بھوٹان، نیپال،مالدیپ پر اپنے اثرات کا دائرۂ وہ اس طرح بڑھانا چاہتا ہے کہ آنے والے وقت میں ہندوستان کے مقابلے اس کی پوزیشن بہتر رہے۔ اس سلسلے میں سری لنکا اور مالدیپ کو ’قرض-جال‘ میں الجھانے کی ہی مثال نہیں، اکتوبر 2021 میں چین اور بھوٹان کے مابین سرحدی تنازع کو سلجھانے کے لیے ’تھری-اسٹیپ روڈمیپ‘ پر میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ پر ہوئے دستخط کی بھی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے تحت چین نے بھوٹان کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ وہ دو متنازع علاقوں میں سے 495 مربع کلومیٹر کا جکارلنگ اور پاسم لنگ وادیوں کا علاقہ لے لے اور اسے 269 مربع کلومیٹر کا علاقہ دے دے۔ 269 مربع کلومیٹر کا یہ علاقہ بھارت-چین-بھوٹان ٹرائی جنکشن کے پاس ہے، اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ چین فراخ دلی دکھاتے ہوئے کیوں چھوٹا علاقہ خود لینا چاہتا ہے اور بڑا علاقہ بھوٹان کو دینا چاہتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہندوستان کے خلاف وہ خود کو مستحکم سے مستحکم تر بنانا چاہتا ہے۔ اسی لیے نیپال میں چینی دراندازی کو پڑوسی ملک کا اندرونی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کرنا ٹھیک نہیں ہوگا، یہ غور کرنا ہوگا کہ چین ایسا کیوں کر رہا ہے، کیونکہ بار بار چین سے دھوکہ کھانے سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی جائے، اسے جواب دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہا جائے۔
[email protected]
نیپال میں چینی دراندازی باعث تشویش!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS