روس-امریکہ مخاصمت اور عالمی معاشی بحران

0

روس اور یوکرین کے مابین 14دنوں سے جاری جنگ درحقیقت روس اور امریکہ کی مخاصمت کا نتیجہ ہے۔ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو بالواسطہ طور پر یہ جنگ روس اورا مریکہ کے مابین ہورہی ہے اور میدان جنگ یوکرین بناہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ کسی ملک کی ’ قومی خودمختاری ‘ اور ’عالمی قانون ‘ کی خلاف ورزی کے زمرہ میں آتاہے لیکن روس کیلئے یہ جنگ ناگزیر ہوچکی تھی۔ امریکی سامراج نے روس کی گھیرا بندی کا جو منصوبہ بنایاتھا اگر و ہ کامیاب ہوجاتا توروس کے جغرافیہ کے ایک بار پھر بدل جانے کے سنگین خطرات تھے۔
اس سے انکار نہیں کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس بہت زیادہ کمزور ہو گیا تھا۔ تمام وعدوں کے برعکس امریکی سامراج نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرق کی جانب اپنے اثرورسوخ کو بڑھاتے ہوئے ناٹو کو روس کی سرحد پر لا کر کھڑا کر دیا۔ روس کی سرحد پر جنگی مشقیں کی گئیں اور دیگر اشتعال انگیزکارروائی کی جاتی رہی۔ امریکہ اپنا حلقہ اثر روس کے پڑوسی ممالک پر بڑھاتا گیا، یوکرین میں بھی امریکی تسلط میں مسلسل اضافہ ہوتارہا۔ معیشت اور سیاسی طاقت کے تمام کلیدی عہدوں پر بدعنوان امرا اور امریکی سامراج کے مہرے بٹھائے گئے۔ تھوڑا وقت اور گزرتا کہ یوکرین بھی ناٹو کا حصہ بن گیا ہوتا لیکن روس نے یوکرین پر حملہ کرکے امریکہ کا منصوبہ ہی الٹ دیا اور آج دو ہفتوں سے یہ جنگ مسلسل جاری ہے۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس جنگ میں جیت کس کی ہوتی ہے لیکن سردست یہ سوال منھ پھاڑے کھڑا ہے کہ روس -امریکہ مخاصمت کی قیمت چکارہے یوکرین کا مستقبل کیاہوگا؟اس کے ساتھ ہی ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ عالمی معیشت پر اس جنگ کے جو منفی اثرات ہو رہے ہیں، اس سے دنیا کیسے نمٹے گی؟ روس پر مختلف مغربی ممالک بھی پہلے ہی کئی طرح کی پابندیاں لگاچکے ہیں، آج ایک تازہ فیصلے کے بعد امریکہ نے روس پر کچھ دوسری نئی پابندیاں بھی عائد کردی ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ اعلان کیا ہے کہ روس سے تیل کی کسی بھی قسم کی مصنوعات درآمد نہیں کی جائیں گی اور اپنے دوست ممالک سے بھی ان کا یہی اصرار ہے۔اس پابندی کاجوازفراہم کرتے ہوئے جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ روس- یوکرین جنگ کو 14 دن ہوچکے ہیں اور اس دوران یوکرین کے کئی شہر تباہ ہوچکے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔انسانوں کی آزادی کا تقاضا ہے کہ روس نام کے عفریت کو معاشی میدان میں مل کر شکست دی جائے اور اس کی درآمدات ختم کی جائیں۔ جوبائیڈن کی اس اپیل کا دنیا کیا جواب دیتی ہے، اس سے قطع نظر یہ دیکھنا اہم ہے کہ روس پر لگائی جانے والی موجودہ پابندیاں دنیا کی معیشت کو کہاں لے جائیں گی۔
سال 2019 سے ہی عالمی معیشت بحران کا شکار ہونا شروع ہوگئی تھی۔ 2020کے آغاز میںآنے والی کورونا وبا نے اس بحران کو اور گہراکردیا۔اب بھی حالات پوری طرح معمول پر نہیں آپائے ہیں۔دنیا کے کم و بیش تمام ممالک کی معاشی صورتحال بہت نازک ہے، ایسے میں روس پر لگائی جانے والی پابندیاں دنیا میں کساد بازاری کی نئی لہر ابھار سکتی ہیں اور اس کا اشارہ بھی مسلسل مل رہاہے۔پابندیوں کی وجہ سے جہاںروسی معیشت کمزور ہورہی ہے اور روبل کی قدر میں گراوٹ آرہی ہے تو وہیں جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس کی قیمتیں بے قابو ہو رہی ہیںجس کی وجہ سے عالمی معیشت میں افراط زر اور دیگر عوامل پر دباؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج خسارہ پر خسارہ کا نیا ریکارڈ بنارہے ہیں اور قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔
پابندیاں دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہیں، ایک طرف جہاں اس سے روس کی معیشت کمزور ہوگی تو دوسری جانب خود امریکہ اور مغربی ممالک بھی تلوار کے اس وار سے خود کو بچانہیں پائیں گے۔ابھی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک تیل اور قدرتی گیس کی اپنی ضرورت کا ایک تہائی حصہ روس سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے یہ سپلائی متاثر ہوگی اور قیمتیں مزید بڑھیں گی۔موجودہ حالت اشتعال میں روس سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ ان پابندیوں کا جواب دے اوراس کا بھی خدشہ ہے کہ وہ یوروپ تک جانے والی گیس کی سپلائی پائپ لائن ہی کاٹ ڈالے۔اگر ایساہوا تو یہ صورتحال مزید سنگین کرنے کا سبب ہوسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اس کے اثرات سے ہندوستان اچھوتا رہے گا۔ ایک جائزہ کے مطابق روس پر لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے ایشیا میں ہندوستان کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ ابھی سے خام تیل کی قیمتوں میں فی بیرل15ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے اور اگر حالات یہی رہے تو ہندوستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں0.12فیصد تک کی بھاری کمی اور افراط زر میں1.5فیصد کااضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ ہماری ترقی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے مہنگائی بھی پھر بے لگام ہوجائے گی۔
دوعالمی غنڈوں کی یہ آپسی مخاصمت ایک نیاعالمی معاشی بحران پیداکرے گی اور اس کا خمیازہ دوسرے ممالک کو بھگتنا ہوگا۔اس لیے ضرورت ہے کہ حالات میں تبدیلی کیلئے دنیا اپنا بامعنی مثبت کردار اداکرے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS