عبیداللّٰہ ناصر
روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد عالمی امن اور استحکام قائم رکھنے اور ملکوں کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ نیز انہیں طاقتور ملکوں کی توسیع پسندی سے بچائے رکھنے کے لیے تشکیل کیے گئے ادارہ اقوام متحدہ کی ضرورت اور افادیت ایک بار پھر سوالوں کے گھیرے میں آگئی ہے۔ اپنی تشکیل سے لے کر آج تک یہ عالمی ادارہ کسی بھی تنازع میں کوئی فیصلہ کن کردار نہیں ادا کرسکا ہے اور دو بڑی طاقتوں امریکہ اور سابقہ سوویت یونین اور اب روس کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا رہا ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کی تشکیل میں ہی بنیادی غلطی ہے جسے ہم انجینئرنگ کی زبان میں مینوفیکچرنگ ڈیفیکٹ کہہ سکتے ہیں اور وہ غلطی ہے سلامتی کونسل اور اس کے پانچ مستقل ممبروں کے ہاتھوں میں ویٹو پاور کا ہونا جس کی بنیاد پر وہ کوئی بھی فیصلہ جو ان کے مفاد کے خلاف ہو، اسے روکوا سکتے ہیں۔کہنے کو تو یہ ویٹوپاور پانچ مستقل ممبروں کے پاس ہے لیکن عملی طور سے ان میں سے تین کے پاس یہ پاور محض نام کے لیے ہے، اس کا اصل استعمال روس اور امریکہ ہی کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے پاس اپنی قراردادوں کو لاگو کرانے کے لیے خود کی کوئی مشینری نہ ہونا ہے اور انہیں لاگو کرانے کے لیے بھی اسے انہیں دو بڑی طاقتوں روس اور امریکہ پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ ویسے دنیا کے کئی ملکوں سے تھوڑے تھوڑے فوجی لے کر وہ امن فوج بھی تشکیل کرتی رہی ہے لیکن اس کا انحصار بھی بڑی طاقتوں کی مرضی پر رہا ہے۔ یاد کیجیے1967میں سلامتی کونسل نے اتفاق رائے سے ایک قرار داد منظور کر کے اسرائیل سے مصر، اردن اور شام کے ان تمام علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کرنے کے لیے کہا تھا جس پر اس نے جون1967کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا لیکن اسرائیل نے آج تک اس کی ایک نہیں سنی اور اقوام متحدہ اپنی اس متفقہ قرار داد کو بھی لاگو نہیں کراسکا کیونکہ اسے امریکہ کی کھلی اور روس کی درپردہ حمایت حاصل تھی اور مذکورہ قرار داد ان دونوں سپر پاور کی منافقت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی۔
روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد سلامتی کونسل کی میٹنگ میں روس کے خلاف کوئی قرار داد نہیں منظو ر ہو سکی کیونکہ روس کے پاس ویٹو پاور ہے۔ اس کے بعد معاملہ جنرل اسمبلی میں گیا جہاں 193ممبر ملکوں میں سے 141ملکوں نے روس کے خلاف ووٹ دیا اور صرف پانچ ممالک روس کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ ہندوستان، چین، پاکستان سمیت 35 ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور افغانستان جیسے چھوٹے اور کمزور ملکوں نے کھل کر روس کے خلاف ووٹ دیا لیکن اتنی بڑی اکثریت کے روس کے خلاف ہونے سے بھی روس اور اس کے صدر پوتن کی صحت پر کیا اثر پڑا، یوکرین پر روس کی بمباری اور دوسری فوجی کارروائی بدستور جاری ہے۔ یہی نہیں روس کی دھمکی کے آگے خود امریکہ بھی ڈرا ہوا خاموش تماشائی بنا ہے۔
ویسے انکل سام بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں، انسانیت پر جتنے مظالم امریکہ نے کیے ہیں اس پر ایک دو نہیں سیکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک مشہور امریکی فلم ساز کا یہ ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’کولمبس نے امریکہ تلاش کیا بہت اچھا کیا، نہ کرتا تو اور اچھا کر تا۔‘‘پوری ریڈ انڈین قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے سے لے کر عراق جیسے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کو گور غریباں میں تبدیل کر دینا اور 15لا کھ سے زیادہ عراقی بچوں، جوانوں، بزرگوں اور عورتوں کا خون ناحق انکل سام کی گردن پر ہے۔ ویتنام سے لے کر افغانستان تک امریکہ نے انسانیت کے ساتھ جو جرائم کیے ہیں، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے اور ان سب جرائم میں اقوام متحدہ خاموش تماشائی ہی بنا رہا، مذمتی قرار دادوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔علامہ اقبال نے مسولونی کے منھ سے یوروپ کو کہلوایا تھا: ’’پردہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی۔کل روا رکھی تھی تم نے میں روا رکھتا ہوں آج۔‘‘۔۔۔ ٹھیک یہی جواب اگر پوتن بائیڈن کو دیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
مگر سوال یہ ہے کہ آج کی اس مہذب دنیا میں کہاں افہام و تفہیم مسائل کے حل کا واحد ذریعہ ہونا چاہیے، کیا اب بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جنگل والا قانون چلے گا اور کیا عالمی برادری طاقت کے زعم میں بدمست کسی سنکی حکمراں کو انسانیت کے قتل، پڑوسی ملکوں کی تباہی اور شہ زوروں کو کمزوروں کو غلام بنانے کی روایت جاری رکھنے کی اجازت دے سکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا رہا تو کوئی کمزور ملک شہ زور پڑوسی کے مقابلہ خود کو محفوظ نہیں سمجھ سکتا، ایسے میں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ کی ضرورت اور افادیت کیا ہے، اس پر از سر نو غور ہونا چاہیے۔
روس یوکرین تنازع میں شاید امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کوئی امریکی صدر خود کو اتنا مجبور اور بے بس پا رہا ہے جتنا صدر جوبائیڈن محسوس کر رہے ہیں، وہیں دوسر ی طرف امریکہ کے حریف بالخصوص چین کے صدر شی چنگ پنگ دل ہی دل میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں، انہوں نے شا ید تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ان کا دیرینہ دوست روس اور اس کے صدر پوتن انہیں بیٹھے بٹھائے ایسا سنہری موقع فراہم کر دیں گے۔اب تک چین امریکہ کی نظروں میں کھٹک رہا تھا کیونکہ امریکی سامراجیت کو اسی سے سب سے بڑا چیلنج مل رہا تھا اور امریکہ چین کی گھیرابندی کرنے کے لیے جاپان، ویتنام، ہندوستان، تائیوان اور اس کے دیگر پڑوسی ملکوں کو لام بند کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی جنوب چین سمندر میں اپنی بحری طاقت بھی بڑھا رہا تھا۔ امریکہ کا سارا دباؤ چین کی طرف تھا کیونکہ سوویت یونین کے زوال کے بعد عرصہ تک یک قطبی دنیا ہونے کے بعد اچانک چین ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت بن کر ہی نہیں ابھرا، بلکہ پہلی بار عالمی امور میں سرگرم کردار بھی ادا کرنے لگا۔امریکہ روس کی طرف سے بے فکر تھا کیونکہ سوویت یونین کا وارث بن جانے اور روسی فیڈریشن کی تشکیل کے باوجود وہ معاشی اور فوجی طور سے ٹوٹا ہوا تھا حالانکہ پوتن نے اقتدار سنبھالتے ہی روس کو عالمی امور میں اہم کردار دلانے کی کوششیں شروع کردی تھیں مگر امریکہ سے ان کا براہ راست ٹکراؤ صرف شام کے معاملہ میں سامنے آیا تھا۔نو آزاد پڑوسی ملکوں آرمینیا، جارجیا، بیلاروس کو پوتن نے ہڑپ کرلیا لیکن امریکہ نے اس پر بددلی کے ساتھ ہی شور مچایا۔ شام کے بعد روس کی طرف سے امریکہ کی فکرمندیوں میں اضافہ تو ضرور ہوا لیکن وہ چین کو ہی بڑا خطرہ مانتا رہا۔ دوسری جانب روس پر نظر رکھنے کے لیے اس نے ناٹو کی توسیع کی طرف بھی توجہ دی اور یوکرین کو اس کے لیے رضامند بھی کر لیا۔ دیگر پڑوسی ملکوں کا انجام دیکھ کر یوکرین بھی امریکہ کے جھانسے میں آگیا اور آج جب وہ اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے تو امریکہ نے اسے اکیلے چھوڑ دیا ہے جس سے امریکہ کے ان سبھی حلیفوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں جو اس پر انحصار کر رہے تھے۔
یوکرین پر روس کے حملہ کے بعد عالمی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانہ پر ہی نہیں کھڑی ہو گئی ہے بلکہ ان چھوٹے ملکوں کے وجود پر بھی خطرہ منڈلانے لگا ہے جن کا اپنے طاقتور پڑوسیوں سے تنازع چل رہا ہے۔ اگر عالمی برادری روسی جارحیت نہیں روک پائی، اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنا رہا، امریکہ کنفیوژن کا یونہی شکار رہا تو چین کے توسیع پسندانہ منصوبوں کو تقویت ملے گی اور تائیوان نیز لداخ میں وہ ایسی ہی مہم جوئی کر سکتا ہے۔ہندوستان کے لیے چین شروع سے ہی بڑا خطرہ رہا ہے اور یوکرین کے بعد وہ اور بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
ان حالات میں عالمی امن اور استحکام نیز کمزور غریب ملکوں کی آزادی، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے آج پھر ناوا بستہ تحریک جیسے کسی ادارہ اورجواہر لعل نہرو، صدر ناصر اور مارشل ٹیٹو جیسے مدبرین کی سخت ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔آج دنیا میں کسی ملک میں ایسا کوئی لیڈر نہیں ہے جس کی بات دنیا میں سنجیدگی سے سنی اور مانی جاتی ہو، سب ٹٹ پنجیے، بونے اور چھوٹی سوچ کے حکمراں ہی دکھائی دیتے ہیں، کسی کے پاس بھی اخلاقی قوت نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو دنیا میں ان کی کوئی وقعت بھی نہیں ہے۔ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کی تشکیل نو پر توجہ دی جائے، سبھی ممالک اپنے اپنے محدود قومی مفاد سے بلند ہو کر عالمی امن اور استحکام، عالمی برادری کے سبھی ملکوں کے برابری کے حقوق اور ان سب کی یکساں اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کو از سر نو تیار کریں۔ دنیا جنگ اور وہ بھی ایٹمی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے، ایک معمولی چنگاری شعلہ جوالہ بن کر دنیا کو تباہ کر سکتی ہے اور قیامت کے جس منظر کو ہم لوگ سنتے پڑھتے آئے ہیں وہ کبھی بھی حقیقت بن سکتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]