اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اثر

0

اس وقت پورے ملک کے ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کی نگاہیں 5 ریاستوں اترپردیش، گوا، اتراکھنڈ، پنجاب اورمنی پورکے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر مرکوز ہیںجو10مارچ کو ووٹوں کی گنتی کے بعد سامنے آئیں گے۔ کیوں نہ ہوں جب نتائج صرف ان ہی ریاستوں تک محدود نہیں رہیں گے یعنی وہ صرف یہ فیصلہ نہیں کریں گے کہ وہاں اگلی حکومت کس پارٹی کی بنے گی؟ اوروزیراعلی کون بنے گا؟ بلکہ ان کے اثرات بہت دورتک ظاہر ہوں گے ، اس کا بھی امکان ہے کہ نتائج ملک کے مستقبل کی سیاسی سمت طے کریں ۔بہرحال اسمبلی انتخابات کے نتائج نکلنے کے بعد سب سے پہلے وہاں نئی نئی حکومتیں بنیں گی یاپرانی حکومتیں برقرار رہیں گی،لیکن اصل کھیل اس کے بعد شروع ہوگا کیونکہ ان ہی نتائج سے راجیہ سبھا کی تصویر بھی واضح ہوگی ۔ جس کی 70سیٹوں کے انتخابات اپریل سے اگست کے دوران ہوں گے ۔ ان میں سے 19 سیٹیںمذکورہ 5 انتخابی ریاستوں سے تعلق رکھتی ہیں۔اس لئے اگر ان ریاستوں میں بی جے پی اوراس کی حلیف پارٹیوں کو کامیابی نہیں ملتی ہے تو راجیہ سبھا کے انتخابات میں این ڈی اے کونقصان پہنچ سکتا ہے اوروہ ایوان میں اکثریت سے بہت زیادہ دورہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے بلوں کو منظورکرانے میں پریشانی ہوسکتی ہے جو اس وقت اکثریت سے معمولی کم ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے ۔بات صرف 5ریاستوں میں حکومت سازی یا راجیہ سبھا کے انتخابات میں ہارجیت کی نہیں ہے بلکہ صدارتی انتخابات کی بھی ہے جو جولائی میں ہوسکتے ہیں۔موجودہ صدرجمہوریہ کی مدت امسال 24جولائی کو پوری ہوجائے گی ۔ اس لئے اس سے پہلے صدارتی انتخابات یقینی ہیں ۔
راجیہ سبھامیں حکمراں طبقہ اوراپوزیشن کی طاقت کے فیصلہ کے ساتھ ہی 5ریاستوں کے نتائج صدارتی انتخابات میں فیصلہ کن رول اداکریں گے۔ گزشتہ ایک برس سے ملک میں جو سیاسی تصویر ابھر رہی ہے ، اسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ اس بار صدارتی الیکشن میں علاقائی پارٹیاں اہم رول اداکریں گی،کیونکہ ان کے پاس ممبران اسمبلی کے ساتھ ممبران پارلیمنٹ کی بڑی تعداد ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ صدرجمہوریہ کے انتخابات میں الیکٹورل کالج کے کل 4,896 ووٹرز میں سے، راجیہ سبھا کے 233 ممبران، لوک سبھا کے 543 ممبران اورریاستی اسمبلیوں کے 4,120 ممبران ہوتے ہیں۔5ریاستوں کے نتائج سے نہ صرف راجیہ سبھا کے ممبران کے ووٹوں کی تصویر بدلے گی بلکہ ان ریاستوں کے ووٹوں کا صدارتی الیکشن پراثرپڑے گا۔ صدارتی الیکشن میں ہر ممبر پارلیمنٹ واسمبلی کے ووٹوں کی قدرالگ الگ ہوتی ہے۔خاص طور سے ممبران اسمبلی کے ووٹوں کی قدراورانتخابی ریاستوں کے ووٹوںکی قدر زیادہ ہے۔پارلیمنٹ میں بھلے ہی این ڈی اے کو دوتہائی اکثریت حاصل ہے لیکن ریاستی اسمبلیوں میں اگر اس کے حامی ممبران کی تعداد کم ہوگی تو اس کے لئے اپنا پسندیدہ امیدوار کامیاب بنانا مشکل ہوگا ۔یاتو اسمبلی انتخابات کے نتائج سے بی جے پی کے لئے قدم قدم پر آسانیاں پیداہوں گی یا مشکلات کھڑی ہوتی جائیں گی۔ اسی لئے اسمبلی انتخابات کو کسی بھی پارٹی نے ہلکے میں نہیں لیا ۔ہر پارٹی نے پوری طاقت جھونک دی۔ووٹ کے لئے سرکردہ لیڈران زمین پر اترنے، لوگوں سے انفرادی ملاقات ، بات چیت اورطویل روڈ شو کرنے پر مجبور ہوئے۔ووٹوں کے لئے پارٹیوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی،جبکہ رائے دہندگان نے خاموشی سے اپنا فیصلہ ای وی ایم میں بند کردیا۔
2019کے پارلیمانی انتخابات کے بعد گزشتہ 3برسوں میں ملک میں جس طرح کے حالات رہے ہیں اورپارلیمانی اجلاسوں میں حکمراں طبقہ اوراپوزیشن کے درمیان جو ٹکرائو کی صورت حال دیکھنے کو ملی ۔ اگر اسمبلی انتخابات میں این ڈی اے کی پوزیشن بہتر نہیں ہوتی ہے تو اپوزیشن کا دبائو بڑھے گا اورآگے کی راہ آسان نہیں ہوگی،کیونکہ تبدیلی کی لہر چلتی ہے تو بہت دور تک جاتی ہے اوراگر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو وہ اپوزیشن پر اورحاوی ہوجائے گی۔ سوال صرف 4ریاستوں میں حکومت کا نہیں ہے بلکہ مرکزی حکومت کا بھی ہے۔ جس پر انتخابی نتائج کا سیدھا اثر پڑے گا ۔اس کے بعد آگے جو اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ، وہ بھی 5 ریاستوں کے نتائج سے متاثر ہوں گے ۔اس لئے ہر لحاظ سے نتائج اہمیت کے حامل ہوں گے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS