دہلی فسادات کی جانچ- ناانصافی کے دو سال

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

ملک کی راجدھانی دہلی میں مسلم مخالف فسادات کو دو برس پورے ہوچکے ہیں، اس موقع پر سماجی تنظیموں اور متاثرین نے دہلی کے پریس کلب و دیگر مقامات پر پروگرام و پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے انصاف کی دہائی لگاتے ہوئے اپنی روداد سنائیں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں دہلی پولیس کی جانچ اور کام کرنے کو لے کر ایک بار پھر سوالات اٹھائے گئے۔ دہلی میں ہونے والے ان فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب و وجوہات کو لے کر تقریباً دس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش ہوئی تھیں تاہم دہلی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ اور رپورٹ کی قانونی حیثیت اس رپورٹ کو دیگر رپورٹ سے منفرد کرتی ہیں، اس رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس نہ صرف دنگوں اور دنگائیوں کی روک تھام کرنے میں ناکام ہوئی تھی بلکہ فسادات کے دوران دنگائیوں کو پوری طرح خاموش تماش بین بن کر اپنی تائید اور حمایت کا ثبوت دے رہی تھی، لیکن دہلی حکومت نے نہ تو اس رپورٹ کو اسمبلی ہاؤس میں پیش کیا اور نہ ہی سفارشات پر کوئی عملی اقدامات کیے۔
ہمارے ملک کے دستور و مروجہ قوانین کے مطابق پولیس محکمہ کی سب سے بنیادی ذمہ داری قانون کی بالادستی کو قائم کرنا ہوتاہے، کسی بھی قسم کی بدامنی کے اندیشوں سے سماج کو محفوظ رکھنا، تاہم اگر کہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو واقعہ کی ایماندارانہ تفتیش کے ساتھ ہی ملزمین کو قانونی گرفت میں لینا، پولیس کی تفتیش ہی متاثرین کو انصاف دلانے کی سب سے اہم کڑی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کی لاپروائی اور غلط تفتیش کے بعد بھی انصاف حاصل کرنا ناممکن نہیں ہوتا ہے لیکن تاخیر ضرور ہوتی ہے اور یہ تاخیر بھی انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، ایسی بہت سی شکایتیں جو پولیس کو تحریری شکل میں دی گئی تھیں لیکن دہلی پولیس نے ان تحریری شکایتوں پر نہ تو ایف آئی آر درج کیں اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی کرنے کی زحمت کی۔
گزشتہ سال ناصر کی ایف آئی آر کو لے کر دہلی کی ایک عدالت نے پھٹکار لگائی تھی جس میں عدالت نے نہ صرف دہلی پولیس کے اوپر پچیس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا بلکہ دہلی دنگوں کی تفتیش میں دہلی پولیس کے رول پر بھی سخت تبصرے کیے تھے۔24فروری2020کو ناصر کے اوپر دنگائیوں نے جان لیوا حملہ کیا تھا، اس حملہ میں ناصر کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی، ناصر نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے دہلی پولیس کو اپنا شکایت نامہ دیا تھا، پولیس کمپلین میں ناصر نے نریش تیاگی، سبھاش تیاگی، اتم تیاگی، سشیل، نریش گوڑ و دیگر کے خلاف نامزد رپورٹ درج کرائی تھی لیکن دہلی پولیس نے ناصر کی شکایت پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی بلکہ25فروری2020کے دن ایک دیگر ایف آئی آر موہن پور موج پور کے معاملہ میں درج کی تھی۔ اسی کے ساتھ اس شکایت کو بھی منسلک کردیا، ناصر کے ساتھ حادثہ شمالی گھونڈا میں پیش آیا تھا، عدالت کے سوالات میں ایک سوال یہ تھا کہ سات متفرق معاملات میں گولی لگنے اور زخمی ہونے کی شکایت و ثبوت ہونے کے باوجود پولیس ایف آئی آر میں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ307 اور انڈین آرمس ایکٹ کی دفعات شامل کیوں نہیں کی گئیں؟ لیکن دہلی پولیس کے پاس عدالت کے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
دہلی پولیس کی تفتیش اور ایمانداری پر پہلی بار عدلیہ نے سخت تبصرہ نہیں کیا ہے، دہلی میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کے مسلم مخالف رول کو دیگر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹوں کے علاوہ عدلیہ نے بھی شروع سے ہی سوالوں کے گھیرے میں رکھا تھا، حتیٰ کہ دنگوں کے دوران زخمیوں تک ایمبولینس پہنچانے کے لیے بھی دیر رات دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاکر حکم نامہ حاصل کرنے کے لیے سماجی کارکن مجبور ہوئے، یہ مجبوری دنگائیوں نے نہیں بلکہ دہلی پولیس کے افسران نے کھڑی کی تھی۔ سکھ مخالف فسادات پر دہلی ہائی کورٹ نے17دسمبر2018کو سی بی آئی بنام سجن کمار ودیگر کا فیصلہ آنے کے بعد دہلی پولیس کی شبیہ بری طرح مجروح ہوئی تھی، ہائی کورٹ کے مطابق دہلی پولیس نے دنگائیوں کو بچانے کی پوری پوری کوشش کی تھی نیز ایماندارانہ تفتیش کرنے میں پوری طرح ناکام ہوئی تھی، امید تھی کہ دہلی پولیس اپنی بگڑتی ہوئی تصویر کو اچھا بنانے کی سنجیدہ کوششیں کرے گی۔
کسی بھی شہری یا انسان کی جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو یہ ناکامی بلاشبہ حکومت و پولیس کی ہوتی ہے لیکن اس ناکامی کا ہمارے ملک میں کوئی احتسابی نظام آج تک قائم نہیں ہوا۔ حکومتیں سرکاری خزانے میں جمع عوام کے ٹیکس سے معاوضہ ادا کرنے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھ لیتی ہیں جس کا مقصد بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔
یہ فسادات ملک کی راجدھانی میں ہورہے تھے اور کئی دن تک ہوتے رہے تاہم ان فسادات کو روکنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش مرکزی یا دہلی حکومت کی جانب سے نہیں ہوئی۔ فسادات شروع ہونے والے دن دہلی پولیس کے سینئر افسران کے سامنے دھمکی دی گئی اور ماحول پوری طرح سے خراب کیاگیا تھاجس سے فسادات شروع ہوئے لیکن دہلی ہائی کورٹ میں دہلی پولیس کے اعلیٰ افسران ان بھڑکاؤ ویڈیوز کی معلومات سے انکار کرتے ہیں جس کے بعد ہائی کورٹ کے فاضل جج نے وہ ویڈیو دکھائے جو کہ میڈیا و سوشل میڈیا میں ہنگامہ برپاکیے ہوئے تھے، آگ زنی و قتل غارت گری کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کی خبریں ہر طرف پھیل گئیں تاہم پولیس کے ذریعے کرفیو لگانے یا فسادیوں پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی، یہی وجہ رہی کہ چار سے پانچ دن تک ملک کی راجدھانی میں بھی فسادات پر قابو نہیں پایا گیا جس میں تقریباًً53افراد کی موت اور ہزاروں کروڑ کا مالی نقصان ہوا، مخصوص اقلیتی طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے مذہبی مقامات کو تباہ و برباد کیا گیا۔
بہت سے ویڈیو اور فوٹو بھی منظرعام پر آئے جن میں یہ صاف صاف ظاہر ہورہا تھا کہ فسادات کے دوران پولیس دنگائیوں کی مدد کررہی ہے، یہ مدد کہیں فسادیوں کو اپنے سامنے اقلیتی طبقے پر حملے کے دوران خاموش تماش بین بن کرتھی تو کہیں دنگائیوں کے ساتھ پولیس بھی اقلیتی طبقے پر پتھراؤ یا لاٹھی چلارہی تھی۔ اقلیتی طبقے کے بچوں کو وردی پہنے ہوئے پولیس کے افراد آزادی دلانے اور حب الوطنی کا سبق یاد کراتے ہوئے لاٹھیاں برساتے دکھے۔ گھر و مارکیٹ تین چار دن تک جلتی رہی لیکن آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ بھڑکاؤ تقریریں کرنے والوں کے خلاف پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات دینے والے دہلی ہائی کورٹ کے جج کا اگلے ہی دن ٹرانسفر ہوجاتا ہے اور ان کے احکامات کو بالائے طاق رکھ کر پولیس دو سال گزرنے کے بعد بھی ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرتی ہے، دہلی پولیس نے دنگائیوں کو بچانے کی کوشش کیوں کی اور قانونی و دستوری فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کن اسباب و وجوہات کی بنا پر ہوئی، یہ حقیقت تو شاید عدالت میں کبھی ثابت نہ ہوسکے لیکن عدلیہ نے پولیس کی ناکامیوں اور بے ایمانی پر سے پردہ تو اٹھاہی دیا ہے۔ فسادات کے دوران اور پھر فسادات ختم ہونے کے بعد بھی اقلیتی طبقے نے پولیس کی یکطرفہ کارروائی و زیادتیوں کو لے کر شکایتیں کیں۔
متاثرین نے دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو دیے گئے بیانات میں پولیس کے خلاف بہت سے الزامات لگائے جن میں پولیس کا ملزمین کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج کرنے سے انکار، پولیس کے ذریعہ شکایت کرنے والوں پر تھانے میں صلح کرنے کا دباؤ نیز فسادات کے دوران خاموش تماشائی بنے رہنا، یا اپنی ذمہ داری و فرائض کو جان بوجھ کر انجام نہ دینا شامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج دشمن طاقتیں اپنے سیاسی یا فرقہ وارانہ مفادات کے لیے ہندو مسلم فسادات یا دنگے کرانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں اور فرقہ وارانہ حادثات کبھی بھی اور کہیں بھی ہوسکتے ہیں اور ان کو روکنا آسان نہیں لیکن اگر ملک کی راجدھانی دہلی میں بھی پولیس یہ فسادات کئی روز گزرجانے کے بعد بھی روکنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ پولیس کے کام کرنے کے طریقوں پر، عدلیہ بھی غلط طریقے سے جانچ کرنے کے الزامات پر اپنی مہر ثبت کرتے ہوئے پچیس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کرتی ہے تو پولیس محکمہ کو خود اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ ان حالات میں دہلی پولیس کو ان فسادات کی جانچ کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی حق نہیں بچتا تھا بلکہ کسی دیگر آزاد جانچ ایجنسی کے ذریعے کسی ایماندار جج کی رہنمائی میں مکمل جانچ ہونی چاہیے تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے۔ انصاف کو یقینی بنانا حکومت اور عدلیہ کے ساتھ ساتھ سماج کی بھی دستوری ذمہ داری ہے لیکن نام نہاد سماجی کارکنان و تنظیمیں پریس کلب و سوشل میڈیا سے باہر نکل کر کوئی سنجیدہ عملی کوششیں کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS