مہنگائی اور ملک کی مضبوطی !

0

یوکرین پر روسی یلغار سے قبل ہی یہ خدشہ ظاہر ہونے لگا تھا کہ مہنگائی پھرسے پر پھیلائے گی۔خاص کر ہندوستان میں مہنگائی میں دیوہیکل اضافہ کی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں لیکن پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی وجہ سے یہ امید بھی تھی کہ حکومت اس پر قابو پانے کے اقدامات کرے گی۔لیکن ایسا نہیں ہوا، ماہرین کا قول ہی کرسی نشیں ہوا اور اب یکم مارچ سے ہی مہنگائی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی مہنگائی کے اس نئے وار سے نہیں بچ پائی ہیں۔ دودھ جیسی چیزکی قیمت میں بھی فی لیٹر 2 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ امول اور پراگ کے بعد دوسری کمپنیاں بھی اس اضافہ کے نفاذ کی تیاری کرچکی ہیں۔اسی طرح کمرشیل ایل پی جی یعنی 19 کلو اور 5کلو کے سلنڈر کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 19 کلو کے سلنڈر کی قیمت میں کلکتہ میں108 روپے اور دہلی میں 105روپے فی سلنڈر کا اضافہ ہوا ہے۔اب کلکتہ میں اس کی قیمت 2 ہزار 95 روپے اور دہلی میں 2ہزار 12روپے ہوگئی ہے جب کہ چنئی میں اس کی قیمت 2100 روپے سے اوپر ہے۔ اسی طرح پانچ کلو والے ایل پی جی سلنڈر کی قیمت میں27روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ صرف 5مہینوں کی قلیل مدت میں کمرشیل ایل پی جی کی قیمتوں میں 5گنا اضافہ دیکھا گیاہے۔ یہ اضافہ بہت تکلیف دہ ہے۔ چونکہ یہ کمرشیل سلنڈر عام طور پر دکانوں اور ہوٹل، ریستوراں میں استعمال ہوتے ہیں ان کی قیمت میں اضافہ کے بعد وہاں ملنے والے کھانے بھی مہنگے ہوجائیں گے، جو لوگ روزگار کیلئے گھروں سے دور رہتے ہیں اور جنہیں دونوں وقت باہر ہی کھانا کھانا پڑتا ہے ان کیلئے یہ اضافہ عذاب ناک ہے۔ یہ خبر بھی ہے کہ گھریلو ایل پی جی یعنی14کلو والے سلنڈر کی قیمت بھی جلد ہی بڑھ سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی پانچ ریاستوں میں 10مارچ کو انتخابی نتائج آنے کے بعد دودھ اور گیس کے ساتھ پٹرول اور ڈیژل کی قیمتیں بھی بڑھنے کا خدشہ ہے۔اس خدشہ کو روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ نے بھی تقویت بخشی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت 120ڈالر فی بیرل کے قریب پہنچ گئی ہے۔عالمی بازار میں ہونے والی اس گرانی کا اثر ملکی بازار پر پڑنایقینی ہے لیکن ابھی انتخابات کی وجہ سے یہ قیمتیں برقرار ہیں۔اس سے قبل جب بھی عالمی بازار میں تیل کی قیمتوں میں معمولی سابھی اضافہ ہوتاتھا تو گھریلو تیل کی قیمتیں فوراً بڑھادی جاتی تھیںاور حکومت یہ کہہ کر دامن بچالیتی کہ تیل کی قیمتوں کاتعین اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ایک دو روز کی تاخیر صرف انتخابی نتائج کے اعلان تک ہی ہے۔
اس سے قبل بارہا یہ مشاہدہ کیاجاچکا ہے۔ابھی 2021میں ہی مغربی بنگال اور دوسری چار ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی پٹرول اور ڈیژل کی قیمتیں یومیہ بنیاد پر بڑھتے ہوئے 100 روپے اور اس سے بھی زیادہ پرپہنچ گئی تھیں۔اب پھر انتخابات کے بعد اضافہ کے اسی تسلسل کا خطرہ ہے اور اس بار تو جنگ کا بہانہ بھی ہے۔حالانکہ اس سے پہلے بھی کئی ایک جنگیں ہوچکی ہیں اور ملک نے معیشت کے کئی برے دور دیکھے ہیں، عالمی حالات کا معیشت پر منفی اثر بھی ہوا ہے لیکن ان سب کے باوجود عوام کی بنیادی ضرورت کی چیزوں پر اس کا بار نہیں ڈالا گیا۔لیکن اب جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیاگیا ہے۔حکومتی ڈیٹا خود یہ بتارہے ہیں کہ خردہ مہنگائی آسمان چھورہی ہے اور ضروری چیزیں عوام کی رسائی سے دور ہوتی جارہی ہیں۔
یہ سنگین صورتحال حکومت کے فوری اقدامات کا تقاضاکررہی ہے لیکن حکومت عوام کی حالت زار سے مکمل لاپروا انتخابی مہم میں مصروف ہے اور عوام کو یوکرین سے طلبا کے انخلا کی داستان سناتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ہندوستان مضبوط ہوگیا ہے۔ لیکن یہ مضبوطی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان جنوبی ایشیا کے ملکوں میں پچھڑتاجارہاہے۔ 192ویں ممالک کے ذریعہ 2015 میں اپنائے گئے 17-جامع ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے معاملے میں ہندوستان اس سال 3پائیدان نیچے کھسک کر 120 ویں مقام پر پہنچ گیاہے۔جب کہ ہندوستان سے آگے رہنے والے ممالک وہ ہیں جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ ہمارے دست نگر ہیںیعنی بھوٹان، سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش۔
اب یہ حکومت ہی بتائے کہ کون سی مضبوطی ہے جو ملک کو حاصل ہوئی ہے اور اگر یہ مضبوطی حاصل ہوگئی ہے تو پھر عوام کی قوت خرید کیوں ختم ہوچکی ہے اور مہنگائی کا دیو کیوں انہیں نگلنے کو بیتاب کھڑا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS