زین شمسی
کئی ریاستوں میں چناؤ کا ماحول ہے، خاص کر اترپردیش الیکشن پر سب کی نگاہیں مرکوز ہیں، اس لیے نہیں کہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے بلکہ اس لیے کہ وہاں یوگی کی حکومت ہے۔ یوگی کو ہرانے کے لیے اپوزیشن کی حکمت عملی کیا پیغام لاتی ہے اس کے نتیجہ کے لیے ہمیں ابھی مزید کچھ دن انتظار کرنا ہوگا، مگر یوگی کی جیت اور شکست بی جے پی کے لیے بھی کم دلچسپی کا سامان پیدا نہیں کرنے والی ہے۔ اندھ بھکتوں اور بھارت کو مکمل اور باضابطہ طور پر ہندو راشٹر قرار دینے والوںکے لیے مودی سے زیادہ یوگی کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں، اس کا اشارہ نام نہاد قومی میڈیا ان کے غلط کارناموں کو مشتہر کرکے کئی دفع دے چکا ہے، یوگی کی مقبولیت مودی گروپ کے لیے ٹینشن پیدا کر نے والی ہے اور یہ ٹینشن انہیں ایودھیا کی جگہ گورکھپور سے الیکشن لڑانے کے فیصلہ میں ظاہر ہوچکی ہے۔ اندرونی کشمکش کا خمیازہ الیکشن گنوا کر نہ اٹھایا جائے اسی لیے امت شاہ اور نریندر مودی جلسے جلوس کرتے رہے ہیں، مگر جس طرح سے ان کی زبان اور بیان میں لکنت رہی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ اترپردیش میں ان کی راہ آسان نہیں ہے۔ بی جے پی یہ تو چاہتی ہے کہ الیکشن میں جیت ہو،لیکن اتنی بڑی جیت نہ ہو کہ یوگی پی ایم کے دعویدار بن سکیں۔ ورنہ اترپردیش جیسی ریاست میں بی جے پی کا سٹیک فارمولہ مسلمان، پاکستان، قبرستان، حجاب کا کارگر ثابت نہ ہونا اپنے آپ میں ایک معمہ ہے، اور تو اور کسانوں کے خلاف لائے گئے بل کو واپس لینے کا تجربہ بھی فیل ثابت ہوجائے تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بی جے پی اس ریاست میں جارح رخ اپنا نا نہیں چاہتی تھی۔تاہم ٹی وی اینکرس نے تو نفرت کے تمام حربے آزمائے، مگر بدقسمتی سے انہیں بھی اندھ بھکتوں کا بہت زیادہ تعاون حاصل نہیں ہو سکا۔ حجاب معاملہ بھی زور نہیں پکڑ سکا اور روس اور یوکرین کی جنگ سے تو انہیں مایوسی ہی حاصل ہونی تھی کہ دونوں طرف ہی مسلمان نہیں تھے، کس کی طرفداری کریں، آج تک مخمصہ میں ہیں۔جب دیکھا کہ مسلم ممالک کسی کی طرفداری نہیں کر رہے ہیں تب سوچا کہ کیوں نہیں اسرائیل کا ساتھ دیا جائے جو روس کے خلاف ہے۔ اینکرس نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جس وجہ سے اسرائیل روس کے خلاف ہے وہ خود وہی کام فلسطین میں کر رہا ہے۔ مگر ہمارا میڈیا اپنی سہولت کے لیے صرف یہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف کیا ہو رہا ہے، وہ اس کی حمایت کر نے پر مجبور ہو جائے گا اور یہ دیکھتا ہے کہ مسلمانوں کی مخالفت کرنے والے کون ہیں تو وہ ان کی طرف کھڑا ہو جاتا ہے۔ اسے یہ کبھی نظر نہیں آئے گا کہ ایران اور عراق نے کس سنجیدگی اورذمہ داری کے ساتھ یوکرین میں موجود اپنے طلبا کو واپس بلالیا اور وہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ہندوستانی طلبا کو یوکرین میں کس طرح مصیبت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں۔ یوکرین اور روس کے تنازع پر مودی سرکار گھر میں اور باہر میں بھی مکمل طور پر بے بس نظر آئی ہے، مگر کیا کیجیے کہ جب ہندوستان کی تمام ایجنسیوں کو خامیوں سے ہی پیار ہوجائے۔
ویسے اترپردیش الیکشن میں اب تک جو ہوا ہے اور جو ہورہا ہے، اس میں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ سماج وادی پارٹی جیت ہی جائے گی اور بی جے پی ہار ہی جائے گی، لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ الیکشن سے قبل ریاست میں دوطرفہ الیکشن ہونے کی بی جے پی کی حکمت عملی کام کر گئی ہے، ایسی حکمت عملی میں بی جے پی کو دو ہرا فائدہ ہوتا ہے ایک تولوگوں کی توجہ بی جے پی کی طرف ہو جاتی ہے اور دوسرے کانگریس کو زبردست نقصان ہوتا ہے۔ دور سے دیکھنے میں یہ توصاف ہے کہ مقابلہ سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہے، مگر اترپردیش خاص کر مشرقی اتر پردیش میں کانگریس کی بھی پرزور حمایت کچھ ایسا اشارہ دے رہی ہے کہ برسوں بعد یو پی میں کانگریس کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بی جے پی کا برہمن ووٹ کھسک کر کانگریس کی طرف آیا ہے اور دوسرے پرینکا گاندھی کی قیادت میں خواتین ووٹ کاکانگریس پر اعتماد بڑھا ہے۔ الیکشن کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو،لیکن یہ تو طے ہے کہ ریاست میں کانگریس کی امیدواری بڑھے یا نہ بڑھے مگر ووٹ فیصد ضرور بڑھے گا، پرینکا اگر ووٹ فیصد بڑھالے گئیں تو آئندہ لوک سبھا الیکشن میں کانگریس بی جے پی کو ٹکر دے گی، یہ بی جے پی کے پالیسی ساز بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔رہی بات مسلمانوں کی تو سب سے آسان ووٹنگ پلاننگ مسلمانوں کی ہی ہوتی ہے،دیگر تمام امور کی طرح الیکشن میں بھی مسلمانوں کو مستقبل کی پروا نہیں ہوتی بلکہ وہ عارضی طور پر صرف یہ دیکھتے ہیں کہ بی جے پی کو کون ہرا رہا ہے اور وہ انہیں ووٹ دے آتے ہیں اور اپنی سیلفی فیس بک پر پوسٹ کر دیتے ہیں۔ اگر ان کا امیدوار جیت جاتا ہے تو اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں اور ہار جاتا ہے تو دوسری کمیونٹی کے لوگوں پر اس کی ذمہ داری ڈال کر اگلے الیکشن تک اپنی بے وقعتی پر روتے رہتے ہیں۔ انہیں اب تک یہ پتہ نہیں ہے کہ الیکشن اسٹرٹیجی کیا ہے، یہاں تک کہ الیکشن کیا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے؟ انہیں اب تک یہ سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیسے ان کی صف بندی کی وجہ سے لالو، ملائم، ممتا، کجریوال، مایاوتی وغیرہ بڑے بنے اور اپنی کمیونٹی کو بڑا کر گئے اور وہ جن کی وجہ سے بنے وہ آج بھی وہی ہیں جہاں پہلے تھے۔
دراصل مین اسٹریم سے غائب ہوجانے اور سماجی سروکار سے کٹ جانے کا یہی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے کہ آپ سیاسی طور پر بونے بنا دیے جاتے ہیں۔جس دن مسلمان سمجھ گئے کہ حق رائے دہی ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے ان کا وقار بلند ہوسکتا ہے، وہ دن ان کے لیے اچھے دن ضرور لائے گا۔عارضی فائدہ کے لیے نہیں بلکہ مستقل مفاد کے لیے الیکشن کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہمیشہ قومی پارٹیاں ہی اقلیتوں کے لیے سود مند ہوتی ہیں، علاقائی پارٹیاں ان کے تعلق سے صرف اتنا سوچتی ہیں کہ ان کا استعمال کر کے اپنی ذات برادری کو اونچا کر دیا جائے۔ وہ کبھی بھی مسلم حامی نہیں ہو سکتیں۔
سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]