اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین بحران پرقراردادکو روس نے ویٹو کردیااور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ قرارداد میں ماسکو سے یوکرین پر حملہ روکنے اوراپنی افواج واپس بلانے کی مانگ کی گئی تھی ، ساتھ ہی روس کے جارحانہ رویہ کی مذمت کی گئی تھی۔ظاہر سی بات ہے کہ روس اسے ویٹونہیں کرتاتوکیاکرتا۔ آخر وہ اپنے خلاف قرارداد کو کیسے برداشت کرتا ؟اس نے جو کیا سلامتی کونسل کے 5مستقل ارکان بھی وہی کرتے بلکہ غیر مستقل ارکان بھی اپنے معاملہ میں ایساہی موقف اختیارکرتے۔ بہرحال امریکہ اوردیگر ممالک کی طرف سے پیش کردہ قراردادپر 15ممالک نے ووٹنگ کی ،جن میں سے 11نے حمایت میں جبکہ تنہا روس نے مخالفت میں ووٹنگ کی۔جتنی اہمیت کا حامل روس کا ویٹو ہے اس سے کم ان ممالک کا موقف نہیں ہے ، جوغیر جانبداررہے یعنی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ غیرجانبدار رہنے والے 3ممالک میں وطن عزیز ہندوستان کے علاوہ چین اورمتحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ یوکرین پر حملے کے بعد بیانات سے سبھی کو پتہ چل گیا تھا کہ اس پر دنیا کے ممالک 2گروپوںمیں تقسیم ہیں۔ایک طرف وہ ممالک ہیں جو جنگ میں روس کی مخالفت کررہے ہیں اوردوسری طرف وہ ہیں جو جنگ روکنے کی باتیں کررہے ہیں لیکن روس کے خلاف کوئی بیان نہیں دے رہے ہیں یعنی غیرجانبدارہیں۔ سلامتی کونسل میں ووٹنگ سے یہ بات اورواضح ہوگئی۔ ہندوستان نے نہ صرف سلامتی کونسل میں ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیابلکہ آئندہ ماہ برطانیہ میں منعقد ہونے والی کثیرالجہتی فضائی مشق میں شرکت نہ کرنے کافیصلہ بھی کیاہے۔یہ دونوں فیصلے یوکرین پر حملے کے تناظر میں دوررس اہمیت کے حامل ہیں۔ایک طرح سے وطن عزیز نے ایک لائن کھینچ دی ہے اور اپنے قول وعمل سے ثابت کردیا کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ مذکورہ قرارداد پر امریکہ بھی چاہتا تھا کہ ہندوستان اس کے حق میں ووٹنگ کرے اورروس بھی چاہتا تھا کہ اس کے خلاف ہندوستان ووٹنگ نہ کرے۔ وطن عزیز کی ووٹنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہوتا وہی جو روس کرتا ، لیکن غیرجانبدار رہ کر ہندوستان نے اقوام عالم کو ایک ٹھوس پیغام دے دیا ہے۔ ساتھ ہی جنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ بات چیت ہی اختلافات دور کرنے کا واحد راستہ ہے۔حالانکہ معروف ہندنژاد امریکی قانون ساز رو کھنہ نے ووٹنگ میں ہندوستان کے حصہ نہ لینے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کے موجودہ توسیع پسندانہ منصوبوں کے خلاف امریکہ نئی دہلی کے ساتھ کھڑا رہے گا نہ کہ روس کے ساتھ۔ لیکن ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان وہی کرتا ہے جو اس کی پالیسی ہوتی ہے۔
ہندوستان کے اس فیصلہ سے یقینا امریکہ اوریوروپی ممالک خوش نہیں ہوں گے۔لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے جب ہندوستان نے امریکی موقف کے خلاف ووٹنگ کی۔ اس سے قبل کئی مواقع پربین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہندوستان نے یا تو امریکی موقف کے خلاف ووٹنگ کی یا غیرجانبدار رہا۔ویسے بھی سوال یہاں یوکرین کے ساتھ اظہاریک جہتی یا امریکہ کی مخالفت کا نہیں ہے جیساکہ تاثر دیا جارہا ہے۔ہندوستان شروع سے جنگ روکنے کی بات کررہا ہے اور تنازع کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی وکالت کررہا ہے۔رہی بات روس کی تو جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کاجھکائو پوری طرح امریکہ کی طرف ہوگیا ہے اوروہ روس سے دورہوگیا ہے، وہ شاید غلط فہمی میں مبتلا تھے۔آخر ہندوستان اس روس کے خلاف کیسے جاسکتا ہے جس کے ساتھ قدیم تعلقات ہیں اوراس نے ہمیشہ سلامتی کونسل میں ہندوستان کے خلاف قرارداد کو ویٹو کیاہے۔
سلامتی کونسل میںسب سے زیادہ 146بارویٹوپاورکا استعمال کرنے والے روس نے ایک دونہیں کئی بار ہندوستان کے حق میں ویٹو کیاہے۔ چاہے وہ 1957،1962اور1971میں مسئلہ کشمیر پر ہویا 1961 میںپرتگال سے گواکی آزادی کے لیے ہو۔ روس ہی کی وجہ سے کشمیر بین الاقوامی مسئلہ بننے کے بجائے دوطرفہ مسئلہ بن کررہ گیا۔یعنی روس کی وجہ سے ہندوستان کو ماضی میں بہت فائدہ ہوا ہے اوروہ اس کا قدیم دوست ہے۔ایسے میں یہ سوچنا ہی فضول ہے کہ ہندوستان روس کے خلاف بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جاسکتا ہے۔ہندوستان نے جو کیا اپنی قدیم پالیسی کے مطابق ہی کیا ہے اوراس پر کسی کو حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
[email protected]
یوکرین بحران اور ہندوستان کا موقف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS