قرآن وحدیث کے تحت حجاب پہننا لازمی
ترکی یا دیگر ممالک کا آئین ہندوستان کیلئے قابل عمل نہیں، کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں میں ایم ایل اے
بنگلورو (ایس این بی) : کرناٹک ہائی کورٹ نے جمعہ کے دن حجاب تنازع پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سہ رکنی بنچ نے سماعت جمعہ کے دن مکمل کرلی۔ہائی کورٹ نے اس معاملے کی 11 دنوں تک سماعت کی ہے۔منگل کے دن کرناٹک اسٹیٹ مائنارٹیز ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنس مینجمنٹس فیڈریشن کی طرف سے دائر عرضی کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے حکومت سے سوال کیاتھا،تو ریاستی حکومت نے ایک حلف نامہ پیش کیا کہ وہ پرائیویٹ اقلیتی تعلیم اداروں میں کوئی بھی یونیفارم ضابطوں میں مداخلت نہیں کرتی۔اس لئے ہائی کورٹ نے اس عرضی کا تصفیہ مکمل کرلیا۔چہار شنبہ کے دن ہائی کورٹ نے زبانی وضاحت میں کہاتھا کہ10 فروری کو اس نے حجاب، زعفرانی شال اور دیگرمذہبی علامات والے لباس پہن کر کلاس میں نہ جانے کا جو عبوری حکم جاری کیاتھا، وہ صرف ان سرکاری کالجوں پرنافذ ہوگا، جہاں کالجوں کی طرف سے یونیفارم مقررکیاگیا ہو۔آج دوپہر 2:30 بجے جب عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو عرضی گزار طالبات کے سینئر وکیل یوسف مچالا نے کہاکہ عرضی گزاروں کی طرف سے سینئر وکیل دیودت کامت نے اڈوکیٹ جنرل اور دیگر سینئر وکیلوں کو نہایت تفصیلی جواب دیا ہے۔ہم ان کے جواب کی پوری طرح حمایت کرتے ہیں،میںچند اور چیزیں مختصر طور پر بتانا چاہوں گا۔عرضی گزاروں نے سرکاری حکم نامہ(GO ) کی منسوخی اورحجاب کے ساتھ کلاسوں میں حاضری کی درخواست کی ہے۔ہم حجاب پہلے سے پہنتے رہے ہیں۔جو سر اور چہرہ کو ڈھانپنے والا ایک کپڑا ہے، جس کی استعمال کی اجازت ہونی چاہئے۔اس طرح کے کپڑے کے استعمال سے ہم کو روک نہیں سکتے۔یہ ضمیر کی آواز پر تعمیل کی جانے والی ایک روایت ہے۔اس کے لئے دفعہ25 کے تحت اجازت ہونی چاہئے۔یہاں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آیا یہ مذہبی فرائض میں شامل ہے یا نہیں۔اس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیں اس تعلق سے آپ کا استدلال یاد ہے۔برائے کرم اسے نہ دھرائیں، تو یوسف مچالا نے کہاکہ میں صرف یاد دہانی کرارہاہوں۔انہوں نے مزید کہاکہ ہم نے جوعرضی دائر کی ہے، اس کی منظوری کے لئے یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ آیا یہ مذہبی فرائض میں شامل ہے، یانہیں۔لیکن اگر عدالت کاخیال ہے کہ مذہبی فرائض ای آر پی (ESSENTIAL RELIGIOUS PRACTICE ) اگر عدالت کا خیال ہے کہ ای آر پی کے بارے میں غورکرنا ضروری ہے تو میں پوری طرح دیودت کامت کے خیالات کی حمایت کرتا ہوں۔ یوسف مچالانے محمد پکتھال کا ترجمہ قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ حقیقی اسلامی روایت میں سر کا ڈھانپنا ضروری ہے۔یہ حوالہ ریاستی حکومت کی طرف سے دیئے گئے جواب اور منظوری سے دیاگیا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ حدیث شریف میں بھی کہاگیا ہے کہ چہرہ ڈھانپنے کی ضرورت نہیں بھی ہے تو حجاب پہننا ضروری ہے۔کئی مذہبی رواج وروایات اس بارے میں ہیں۔حکومت نے خود اپنے جواب میں اس کا اعتراف کیا ہے۔یوسف مچالانے سبری مالا مندر کے بھکتوں کے تعلق سے سپریم کورٹ کے جسٹس نریمان کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا اور کہاکہ عدالت کو مذہبی فریضہ کیاہے،اس بارے میں معقولیت سے دیکھنا ہوگا۔ہم صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا سر پر رکھ رہے ہیں۔اس لئے فاضل جج ان سوالوںمیں نہ جائیں کہ حجاب، ابایا،خمر یا گھونگھٹ کیا ہے؟ایودھیا مقدمہ کے حوالے سے یوسف مچالانے کہاکہ عدالت کو مذہبی بحث میں شامل ہونے سے احتیاط برتنا چاہئے، صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی مذہب کے پیروکار کا عقیدہ اور یقین کسی معاملے میں پوری طرح تعمیل کیا جارہا ہے۔یہاں عقیدہ اور یقین کی بات یہ ہے کہ مسلم لڑکی یا طالبہ کو قرآن نے کیا حکم دیا ہے اور اسی طرح سے حجاب پہنناہوگا۔اس لئے فاضل ججوں سے درخواست ہے کہ اس بات کا احترام کریں۔اڈوکیٹ جنرل نے کہاہے کہ جو قرآن میں کہاگیا ہے وہ فرض اور لازمی نہیں ہے۔لیکن یہ بات سائرہ بانو مقدمہ میں رد کردی گئی ہے۔جو کچھ قرآن، حدیث اور ائمہ نے کہاہے کہ اس کی تعمیل ضروری ہے۔علاوہ ازیں عرضی گزاروں کے ایک اور سینئر وکیل پروفیسر روی ورما کمار نے اپنی بحث کے اضافی حصہ کے طور پر آج کہاکہ اڈوکیٹ جنرل(اے جی) نے کہا ہے کہ کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں(سی ڈی سی) کو دیئے گئے اختیارات کے لئے کسی آئینی یا قانونی ضابطوں کے حوالہ دینے پر زور نہ دیا جائے۔لیکن انہوں نے کہاکہ مشکلات کو دور کرنے کے تعلق سے ایسی کمیٹیوں کو اختیار دیئے گئے ہیں۔اس مرحلے پر فاضل جج کرشنا ایس دکشت نے کہاکہ عدالتی بنچ ایڈووکیٹ جنرل کے اس بیان سے اتفاق نہیں کرتی کہ کالج ڈیولپمنٹ کمیٹیوں کو اختیارات دیاجانا مشکلات دور کرنے کی شق سے منسوب کی جاسکتی ہے۔
ایک اور وکیل پوبیّا نے کہاکہ کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کی قیادت مقامی ایم ایل اے کے حوالے کرنا درست نہیں۔یہاں پورے اختیارات ایم ایل اے کو دیئے گئے ہیں۔پرنسپل کا کردار صرف ایم ایل اے ے فیصلے کو نافذ کرنا ہے۔(باقی
ایم ایل اے کالج میں ایک راجا کی طرح اختیارات استعمال کرتاہے۔پرنسپل اس کے سامنے کوئی بھی سوال نہیں کرسکتے۔ایم ایل اے کسی کے روبرو جوابدہ نہیں ہے، ڈاکٹر کلکرنی نے مزید کہاکہ حجاب نہ پہننے سے ہماری ریاست میں بدنظمی، فسادات دیکھے گئے ہیں۔حجاب پہننا نظم عامہ کے خلاف نہیں ہے۔ہم کو ترکی اور دیگر ملک کے آئین کو نہیں دیکھنا ہے، ہمارا آئین اعلیٰ ہے۔یہاں قرآن مجید، بھگوت گیتا، بائیبل اور گرو گرنت صاحب کے پیروکار ہیں۔قرآن مجید کے مطابق حجاب کا استعمال کئی سالوں سے ہورہا ہے۔سماج میں مفاد پرست عناصر نفرت کا بیج بوناچاہتے ہیں۔چیف جسٹس ریتو راج اوستھی سے وکیل ڈاکٹر کلکرنی نے اپیل کی کہ حتمی فیصلہ آنے تک بچیوں کو کم ازکم جمعہ اور رمضان میں حجاب پہننے کے لئے عبوری حکم جاری کیا جائے، جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہاکہ اب عبوری حکم کی ضرورت نہیں، ہم حتمی فیصلہ جاری کریں گے۔وکیل بالا کرشنا نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا والے کالج کے گیٹ پر بچیوں کے حجاب اتارنے کے تصاویر اور ویڈیو لے کر انہیں پریشان کررہے ہیں، اس لئے میڈیا کو روکا جائے۔حالانکہ صرف کلاس روم کے اندر ہی حجاب پہننے کا حکم فی الحال جاری کیاگیا ہے۔کالج کے احاطہ میں ہم حجاب پہن کر داخل ہوسکتے ہیں۔لیکن طالبات کو گیٹ پر ہی روکا جارہا ہے۔
حجاب معاملہ پربحث مکمل ، فیصلہ محفوظ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS