پاکستان کی چین کے بعد اب روس پر نظر

0

صبیح احمد

یوکرین کے بحران کو صدر بائیڈن کی انتظامیہ بڑی دانشمندی اور مؤثر طریقے سے سنبھال رہی ہے۔ اس دوران صدر بائیڈن اپنے تمام یوروپی اتحادیوں کو متحد رکھنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اس بحران نے امریکہ کی ایک بڑی اسٹرٹیجک ناکامی کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اس طرح کے معاملوں میں ایک اہم حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ اپنے حریفوں میں دراڑ پیدا کی جائے لیکن امریکی خارجہ پالیسی کی وجہ سے روز بروز اس اصول کی نفی ہو رہی ہے۔ خلاف توقع، امریکی پالیسیاں اپنے حریفوں کو متحد کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک 5,000 صفحات پر مشتمل دستاویز میں روس اور چین نے اپنی ’لامحدود ددستی‘ کی تصدیق کی ہے۔ یہ دونوں بڑی طاقتیں گزشتہ 50 برسوں کی تاریخ میں فی الحال ایک دوسرے سے سب سے زیادہ قریب دکھائی دے رہی ہیں۔ روس کو جو ایک زوال پذیر طاقت بن چکی ہے، چین کی حمایت کسی ’خدا کے تحفہ‘ سے کم نہیں ہے۔ صدر بائیڈن کی یہ دھمکی کہ یوکرین میں جارحیت کی صورت میں وہ روس پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دیں گے، کوئی کام آنے والی نہیں ہے کیونکہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین اس کی مدد کے لیے تیار بیٹھا ہے۔
یہ جواز بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ نظریاتی مماثلت کے سبب فطری طور پر روس اور چین ایک دوسرے کے قریب ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ ہمیشہ یہ فیکٹر کام نہیں کرتا۔ 2014 میں(جب دونوں ممالک اس وقت بھی مطلق العنان تھے) چین نے برجستہ یوکرین پر روس کے حملے کی مخالفت کی تھی۔ وہ ابھی تک روس میں کریمیا کے الحاق کو تسلیم نہیں کرتا۔ جارجیا میں روسی مداخلت کی بھی چین حمایت نہیں کرتا۔ چین اور روس ہمیشہ سے مغرب کے حریف رہے ہیں لیکن یہ دونوں آپس میں اتنے قریب پہلے کبھی نہیں رہے۔ ان دونوںملکوں کی قربت اس بات کی علامت ہے کہ آج کل واشنگٹن میں حکمت عملی پر نظریات کی جیت ہو گئی ہے۔ سرد جنگ کے آغاز کے وقت جب ’حکمت عملی‘ (اسٹرٹیجی) پر ’نظریہ‘ کا دبدبہ تھا، واشنگٹن نے تمام کمیونسٹ ملکوں کو متحد کردیا تھا۔ اور امریکہ کو یہ بات سمجھنے میں 25 سال لگ گئے کہ ماسکو اور بیجنگ کے ساتھ الگ الگ طریقے سے برتائو کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے وقت بھی جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے عراق، ایران اور شمالی کوریا کو ’شیطانیت کے محور‘ قرار دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ دنیا آج بھی بھگت رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید آج پھر وہی غلطی دہرائی جا رہی ہے۔ پاکستان کی امریکہ سے مخاصمت اب کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی چین کے ساتھ قربتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ اب پاکستان کی نظر روس پر بھی پڑنے لگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بہت جلد روس کا دورہ کرنے والے ہیں۔
کیا پاکستان کی چین کے ساتھ ساتھ روس سے بھی قربتیں بڑھ رہی ہیں؟ یہ تاثر اس لیے ابھر رہا ہے کیونکہ چین کے 4 روزہ دورے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان 23 فروری سے روس کا 2 روزہ دورہ کرنے والے ہیں جو 23 برس کے بعد پاکستان کے کسی بھی وزیراعظم کا ماسکو کا پہلا سرکاری دورہ ہو گا۔ عمران خان کے دورئہ روس کے اعلان کے بعد اب یہ تاثر ابھرنے لگا ہے کہ پاکستان شاید چین کے بلاک میں شامل ہو رہا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے 1999 میں روس کا دورہ کیا تھا جبکہ سابق صدر پرویز مشرف 2003 میں اورسابق صدر آصف زرداری 2011 میں روس کا سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی دعوت پر جا رہے ہیں۔ بہرحال اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے۔ عمران خان کے دورہ ماسکو کی اپنی خاص اہمیت ہے۔ حالیہ پیش رفت کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام آباد کی بیجنگ کے ساتھ ساتھ ماسکو سے بھی قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم ایک ایسے وقت روس کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جب یوکرین کے معاملے پر مغربی ممالک کے ساتھ روس کے تعلقات میں کشیدگی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اسلام آباد اور ماسکو کے تعلقات سابق سوویت یونین دور میں انتہائی کشیدہ رہے تھے۔ سوویت یونین کی 70 کی دہائی میں افغانستان میں مداخلت کے دوران پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی ہے۔ امریکہ اب بھی یہ چاہتا ہے کہ پاکستان امریکہ کا اسی طرح ساتھ دے جس طرح پاکستان نے انسداد دہشت گردی کی جنگ کے دوران دیا تھا لیکن شاید اب ایسا ممکن نہ ہو۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کا چین کی طرف رجحان میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لیے ذمہ دار امریکہ ہی ہے کیونکہ واشنگٹن نے اسلام آباد کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جس کی اسلام آباد کو توقع تھی۔ بہرحال چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت کے باوجود پاکستان اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے چاہے گا کہ اس کا کسی ایک ملک کی طرف مکمل جھکاؤ نہ ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ویسے نہیں ہیں جیسا کہ ماضی میں رہے ہیں لیکن امریکہ کا عالمی مالیاتی اداروں میں اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے، لہٰذا پاکستان جیسے ممالک کے لیے امریکہ کو نظرانداز کرنا آسان نہیں ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو بیحد باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے اقتصادی معاہدے اشارہ دے رہے ہیں کہ خطہ کے ملکوں کے درمیان نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں جن کے اثرات پڑوسی جنوبی ایشیائی ملکوں، امریکہ اور خود پاکستان پر پڑ سکتے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ دونوں ملکوں کے تعلقات کسی نہ کسی معاملے پر پیچیدگی کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان کا تو ہندوستان دیرینہ حریف رہا ہے اور چین کے تعلقات بھی ہندوستان کے ساتھ زیادہ خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی ہندوستان کے ساتھ جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ اس لیے چین اور پاکستان کے درمیان اپنے مشترکہ حریف کے مقابلے ایک صفحہ پر ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے لیکن اسے نظر انداز کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ پاکستان اور چین کا مشترکہ اعلامیہ دراصل ہندوستان کے خدشات کی توثیق کرتا ہے جو اسے اپنے دو حریفوں کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے لاحق ہورہے ہیں۔ ہندوستان کا خدشہ ہے کہ چین اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے پاکستان کو استعمال کرتا رہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS