فرانس میں کھیل کے میدان میں حجاب پرپابندی

    0

    فرانسیسی سینیٹ نے کھیلوں کے مقابلوں میں حجاب پر پابندی کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کھیل کے میدان میں سب کو یکساں مواقع اور سہولتیں میسر ہونی چاہئیں۔فرانس کے ایوان بالا میں قانون میں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا گیا جس میں کہا گیا کہ اسپورٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مقابلوں میں مذہبی نشانات یا علامات پہن کر شرکت کو ممنوع قرار دیا جائے۔ سینیٹرز نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس ترمیم کا مقصد کھیلوں کے مقابلوں میں حجاب یا نقاب پر پابندی لگانا ہے، سر پر اسکارف پہننے والے ایتھلیٹس کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔اس ترمیم کی فرانس کی دائیں بازو کی جماعت نے حمایت جبکہ حکومت نے مخالفت کی تھی لیکن اسے منظور کر لیا گیا کیونکہ اس کے حق میں 160 اور اس کی مخالفت میں 143 ووٹ پڑے۔سینیٹر نے ترمیم پڑھتے ہوئے کہا کہ کھیلوں کے میدان میں مذہبی علامات پہننے کے حوالے سے قانونی طور پر ابہام موجود ہے لہٰذا ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ واضح قانون بنائے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کھیلوں میں حجاب یا نقاب پر پابندی نہیں لگائی گئی تو آنے والے عرصے میں ہم کھلاڑیوں کی جانب سے مذہبی علامات پہننے کے رجحان میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔اس قانون کا متن شائع ہونے سے قبل سینیٹ اور ایوان زیریں کے اراکین بیٹھ کر اس کو حتمی شکل دیں گے۔تاہم ابھی تک یہ غیرواضح ہے کہ اس ترمیم کا اطلاق پیرس میں ہونے والے 2024 اولمپکس پر ہو گا یا نہیں کیونکہ ابھی تک اولمپکس کمیٹی نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔یہ ووٹنگ ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب ایک سال قبل ہی مذہبی بنیاد پرستی کی روک تھام اور فرانسیسی اقدار کے فروغ کے لیے مساجد، اسکول اور اسپورٹس کلب کی نگرانی سخت کرنے کا بل منظور کیا گیا تھا۔
    چنانچہ اسپورٹس ملبوسات تیار کرنے والی کمپنی ڈکاتھ لان نے فرانس میں سیاستدانوں کی جانب سے مسلم خواتین کے لباس اور خصوصی طورپر ان کے حجاب پر تنقید کیے جانے کے بعد حجاب کی فروخت بند کردی۔ڈکاتھ لان اسپورٹس کے بہترین ملبوسات تیار کرنے والی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے، یہ کمپنی خواتین اور خصوصی طور پر مسلم خواتین کے لیے بہترین ڈیزائن کے لباس تیار کرنے میں شہرت رکھتی ہیں۔ڈکاتھ لان کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ملبوسات میں خواتین کا حجاب بھی ہے جو مختلف کھیل کھیلنے والی خواتین پہنتی ہیں۔ ڈکاتھ لان کا حجاب نہ صرف اسپورٹس خواتین بلکہ عام خواتین اور خصوصی طور پر نوجوان عرب خواتین شوق سے پہنتی ہیں اور یہ کمپنی مراکش سمیت دیگر مشرق وسطیٰ ممالک میں حجاب فروخت کرنے والی بڑی کمپنی بھی ہے۔ڈکاتھ لان نے فرانس میں مسلم خواتین کے لباس اور خصوصی طور پر ان کے حجاب پر کیے گئے اعتراضات کے بعد حجاب کی فروخت بند کی۔کمپنی نے فرانس میں حجاب کی فروخت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی نے فرانس میں فوری طور پر حجاب کی فروخت کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے قبل کمپنی نے کہا تھا کہ کمپنی کا مقصد دنیا بھر کی خواتین کے لیے بہترین لباس تیار کرنا ہے اور وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔تاہم فرانس کے سیاستدانوں کی جانب سے حالیہ چند ماہ کے دوران مسلم خواتین کے لباس کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد کمپنی نے دیگر ملبوسات کے بجائے صرف حجاب کی فروخت کو بند کردیا۔فرانس کے سیاستدان مسلم خواتین کے مکمل لباس اور خصوصی طور پر حجاب میں ملبوس خواتین کو اپنے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ فرانسیسی سیاستدانوں کے مطابق لباس سے اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنے اور حجاب کرنے والی خواتین شدت پسند ہوسکتی ہیں۔فرانسیسی سیاستدانوں نے عوامی مقامات پر ایسے لباس میں ملبوس خواتین پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا۔فرانسیسی سیاستدانوں اور تنگ نظر افراد کی جانب سے مسلمان خواتین کے لباس اور ان کے حجاب پر تنقید کیے جانے کے بعد کمپنی نے فوری طور پر فرانس میں حجاب کی فروخت بند کردی۔تاہم کمپنی دیگر ممالک میں حجاب کی فروخت کو جاری رکھے گی۔یاد رہے کہ فرانس کی فٹبال فیدریشن پہلے ہی کھیلوں کے مقابلوں میں حجاب یا نقاب پہننے پر پابندی عائد کر چکی ہے۔
    چنانچہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے فرانس کی جانب سے مسلمانوں کے پورے چہرے کے نقاب پر عائد پابندی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس قانون سازی پر نظرثانی کا مطالبہ کردیا۔
    رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے قانون سازی پر اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا کہ فرانس اس پابندی کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا، پینل کی رپورٹ قانون نہیں ہے لیکن یہ فرانس کی عدالتوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ کمیٹی چہرے کے نقاب پر پابندی اور سیکورٹی کے حوالے سے یا معاشرے میں ایک ساتھ رہنے کا مقصد حاصل کرنے کے حوالے سے فرانس کے دعووں پر قائل نہیں ہوئی۔اسی کمیٹی نے 2008 میں حجاب کے باعث دارالاطفال سے معطل کی جانے والی خاتون کے معاملے پر بھی اسی طرح کی رپورٹ دی تھی، ستمبر میں فرانس کے ایک جج کے حوالے سے اخبار ‘لی مونڈے’ نے کہا تھا کہ پینل کے فیصلے پر عمل درآمد لازمی نہ ہونے کے باوجود اس کا فیصلہ فرانس کے مقدمات کے قانون پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔جولائی 2014 میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے فرانس کی نقاب پر متنازع پابندی کو درست قرار دیتے ہوئے پورے چہرے کے نقاب پر پابندی کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دینے کی دلیل کو مسترد کردیا تھا۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے اپنے بیان میں یورپی عدالت کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی خواتین کو اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے حق کو نقصان پہنچا رہی ہے جو انہیں گھر تک محدود کرنے اور پسماندہ بنانے کا باعث ہوسکتی ہے۔کمیٹی کی گزارشات 2012 میں ایک قانون کے تحت سزا پانے والی دو فرانسیسی خواتین کی شکایات کے بعد سامنے آئیں، جس میں کہا گیا تھا کہ عوامی مقامات پر چہرے کو چھپانے کی غرض سے کپڑے کی اشیا کو استعمال نہیں کیا جاسکتا’ تاہم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس پابندی نے دو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی اور فرانس سے ان خواتین کو ہرجانہ ادا کرنے کامطالبہ کیا۔پابندی کے تحت عوامی مقامات میں چہرے کا مکمل نقاب کرنے پر 150 یورو جرمانہ یا فرانسیسی شہریت کے اصولوں کی آگاہی حاصل کرنا لازم ہے۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS