صبیح احمد
پارلیمنٹ کے رواں بجٹ اجلاس کے پہلے مرحلہ میں اپنی تقریر کے دوران کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی نے کئی اہم ایشوز اور ملک کو درپیش کئی سلگتے مسائل کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر بھی کھل کر اپنے خیالات ظاہر کیے۔ کانگریس کے سابق صدر نے حکومت ہند کی مبینہ ناقص پالیسیوں کو چین اور پاکستان کے درمیان قربتوں میں اضافہ اور چین کی حالیہ جارحیت کے لیے خاص طور پر ذمہ دار ٹھہرایا۔ حالانکہ ہندوستان کے تعلق سے پاکستان اور چین کا موقف ہمیشہ سے یکساں رہا ہے اور دونوں ممالک ہندوستان کے معاملے میں ایک صف میں کھڑے دکھائی دیتے رہے ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 2014 کے بعد سے پاک-چین تعلقات میں مزید مضبوطی آئی ہے جس کے لیے عموماً مودی حکومت کی پالیسیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا تا ہے۔ دوسری جانب ٹھیک اسی طرح یوکرین کے معاملہ پر امریکہ کی پالیسیوں کے حوالے سے بھی ایسا ہی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ امریکہ نے یوکرین معاملہ میں روس کے ساتھ ایک نیا محاذ کھول کر چین کے ساتھ ساتھ روس کو بھی اپنے خلاف کھل کر سامنے آنے کا موقع دے دیاہے اور جس کے نتیجے میں امریکہ کے خلاف چین اور روس ایک پلیٹ فارم پر آ گئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان قربت بڑھنے لگی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چین کے سربراہ ژی جن پنگ نے بیجنگ میں 2022 کے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے ملاقات کی جس میں دونوں رہنمائوں نے امریکی اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے قریبی تعاون اپنانے پر زور دیا۔ کہا جاتا ہے کہ پوتن اور ژی کی اب تک کی یہ اڑتیسویں بالمشافہ ملاقات تھی اور یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب دونوں ملکوں کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور جب روس نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں تنازع میں مزید شدت آگئی ہے۔ بہرحال یہ بات ابھی پوری طرح سے واضح نہیں ہوئی ہے کہ یوکرین کے معاملے پر چین کس حد تک روس کی حمایت میں آگے جا سکتا ہے۔ پوتن اور ژی کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں یوکرین کا کوئی واضح ذکر بھی سامنے نہیں آیا لیکن دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک ناٹو کی مزید وسعت کے خلاف ہیں اور مغربی ملکوں کے فوجی اتحاد سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’سرد جنگ‘ کے رویے کو ترک کیا جائے۔ سرد جنگ دراصل امریکہ اور سوویت یونین (سابقہ روس) اور ان کے متعلقہ اتحادیوں یعنی بالترتیب مغربی بلاک اور مشرقی بلاک کے درمیان جغرافیائی و سیاسی کشیدگی کے دور کو کہا جاتا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئی۔ حالانکہ تاریخ داں اس کے شروع اور ختم ہونے کی حتمی تاریخوں کے حوالے سے قطعی طور پرمتفق نہیں ہیں لیکن عمومی طور پر 1947 کی ٹرومین ڈاکٹرین (نظریہ) (12 مارچ 1947) سے 1991 کو سوویت یونین کے زوال (26 دسمبر 1991) تک کے دور کو سرد جنگ کا دور کہا جاتا ہے۔ سرد جنگ کی اصطلاح اس لیے استعمال کی جاتی ہے کیونکہ اس وقت کی دونوں سپر پاورس کے درمیان بڑے پیمانے پر کوئی راست لڑائی نہیں ہو ئی لیکن دونوں نے ہی بڑے علاقائی تنازعات میں الگ الگ گروپوں کی حمایت کی جسے پراکسی وار (درپردہ جنگ) کہا جاتا تھا۔
بہرحال امریکہ نے روس پر برجستہ الزام لگایا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا بہانہ تلاش کر رہا ہے جس کا مقصد روس کا ا ثر و رسوخ مشرقی یوروپ تک بڑھانا ہے جبکہ دوسری جانب ایک طویل اور کثیر جہتی بیان میں تائیوان کے معاملے پر روس نے چین کے موقف کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جزیرہ چین کا ’لازمی حصہ‘ ہے اور یہ کہ وہ ’کسی بھی طور پر‘ تائیوان کی آزادی کے خلاف ہے۔ چین کے حکام نے تائیوان کی حمایت کرنے پر حال ہی میں امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ یہ بات امریکہ اور چین کے درمیان لڑائی کا سبب بن سکتی ہے۔ پوتن اور ژی نے ایشیا میں اثر و رسوخ بڑھانے پر بھی امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ دونوں سربراہان نے کہا کہ وہ انڈو پیسیفک سے متعلق امریکہ کی اس حکمت عملی کے خلاف انتہائی چوکنا ہیں جس کا ’امن اور سلامتی پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔‘ دونوں رہنمائوں نے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی جانب سے سہ فریقی اتحاد قائم کرنے پر بھی ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا ۔ ایک طویل مدت سے روس اور چین امریکی موقف کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یکساں موقف اختیار کرتے رہے ہیں جہاں بحیثیت مستقل ارکان تینوں ملکوں کو ویٹو کے اختیارات حاصل ہیں۔ حال ہی میں چین اور روس نے یوکرین کے معاملے پر بھی یہاں یکساں موقف اختیار کیا ہے۔ ایک حالیہ بیان میں چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سلامتی سے متعلق روس کی تشویش جائز ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ’سرد جنگ کی ذہنیت کو ختم کیا جائے‘ جو اس جانب اشارہ ہے جسے چین امریکی خارجہ پالیسی تصور کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ چین روس کے موقف کے قریب تر آچکا ہے۔ چین کی جانب سے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ یوکرین کے مسئلہ پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور روس کے درمیان پیدا ہونے والا تنازع روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یوکرین کی سرحد کے قریب بھاری تعداد میں روسی افواج کی موجودگی، اس کے جواب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روس اور اس کے صدر کے خلاف اقتصادی تعزیرات عائد کرنے کا انتباہ اور امریکہ کی جانب سے 8 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو الرٹ رکھنے کا فیصلہ ان خدشات میں اضافہ کر رہا ہے کہ اگر بات بڑھتی ہے تو یہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہو گا۔
یہ تنازع کہاں اور کیسے ختم ہوگا؟ اس بارے میں کوئی بھی حتمی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ تمام فریق اپنے اپنے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور اگر آنے والے دنوں میں اس مسئلہ پر مزید بات چیت ہوتی ہے تو اس کے لیے وہ اپنی اپنی پوزیشن کو مستحکم بنا رہے ہیں۔ اس وقت دونوں فریق ایک دوسرے سے گیم کھیل رہے ہیں۔ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اپنے موقف سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بین الاقوامی سیاست میں یہ کھیل عام ہے جس سے فریقین اپنے موقف کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں اگر روسی کارروائیوں کے جواب میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس اور اس کی قیادت پر تعزیرات عائد کیں اور پھر روس نے بھی اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا تو روس اور خاص طور پر یوروپ کیلئے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی کیونکہ یوروپ روس کی گیس اور پٹرولیم پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے اور روس نے ابھی سے اپنی گیس کی ترسیل پر کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے جس کے سبب یوروپ میں گیس کی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ اب اگر روس یوروپ کے لیے اپنی گیس پوری طرح سے بند کردے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا حالت ہو گی۔ اس کا خمیازہ روس کو بھی بھگتنا پڑے گا کیونکہ اگر یوروپ کا بڑی حد تک انحصار روسی گیس اور ایندھن کی درآمد پر ہے تو روسی معیشت کا بھی کسی حد تک انحصار اس گیس اور ایندھن کی فروخت سے ہو نے والی آمدنی پر ہے۔ادھر صدر بائیڈن نے امریکی شہریوں کو یوکرین چھورنے کا مشورہ دیتے ہوئے واضح طور پر انتباہ دے دیا ہے کہ روس کے کسی بھی جارحانہ قدم کے جواب میں گیس پائپ لائن کو نہیں بخشا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جانب سے دیا جانے والا تاثراس معاملے کو کس حد تک لے جا سکتا ہے۔
[email protected]