شاہنواز احمد صدیقی
دنیا کے بدترین سانحات میں ایک سانحہ یوگوسلاویہ کا بھی ہے جو 1992 میں اقوام متحدہ کی امن افواج کی مداخلت کا سبب بنا۔ یوگو سلاویہ کی فوج نے یوگوسلاویہ کے دو خطوں سلووینیا اور کروشیا کی خودمختاری کی تحریکوں کو دبانے کے لئے وہ مظالم کئے جو آج یوروپ کی تاریخ کا ایک تکلیف دہ باب ہیں۔ ہزاروں سربیائی مسلمانوں کو انتہائی بے رحمانہ طریقہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور عصمت دری کوایک ہتھیار کے طورپر استعمال کیا گیا۔اس وقت جو ملک یوگو سلاویہ کی گرفت سے آزاد ہوئے تھے سربیائی سرکار ان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے تیاری کررہی ہے۔ آج ایک بار پھر سرب قیادت نے اپنے دفاعی بجٹ میں اچانک اضافہ کرنا شروع کردیاہے اور 2019 میں یہ اضافہ 43فیصد کا تھا اس سے قبل 2017 میں ملک کے دفاع کے لئے 700ملین امریکی ڈالر مختص کئے گئے تھے۔ جب 2018 میں یہ بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ ملین ہوگیا۔ فوجی اخراجات میں اضافہ پر نظر رکھنے والے اداروں نے اس صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا بدترین وبائی مرض کووڈ-19 کا مقابلہ کررہی تھی۔ سربیاکے عوام نے بھی سرکار کی ترجیحات پر سوال اٹھائے اور پوچھا گیا کہ سرکار کی ترجیحات اسپتالوں کو قائم کرنا ہے یا ہتھیاروں پر خرچ کرنا ہے۔ پچھلے دنوں سربیا کے صدر الیگژینڈر ویشک (Aleksander Vucic) نے اپنی دفاعی پالیسی پر شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کی فوج پچھلے کئی سالوں میں پانچ گنا طاقتورہوگئی ہے۔ سرب صدر کے ان دعوئوں پر بوسنیا، ہرزیگوینا، کوسوو اور مونٹیگرو نے تشویش ظاہر کی ہے۔ اس سے قبل سربیا کی دوسری سطح کی قیادت نے ’سرب دنیا‘ کے اتحاد کی بات کہہ کر یوگوسلاویہ کے منتشر ملکوں کے اتحاد کی بات کہی تھی۔ سربیا کے وزیر داخلہ الیگژ ینڈر وولن (Aleksander Vulin) نے پچھلے دنوں ایک بیان دیا تھا کہ منتشر ریاست (یوگوسلاویہ) کو ایک بار پھر متحد ہونے کی ضرورت ہے اور ایسے ہی متحد ہونے کی ضرورت ہے جیسے وہ پہلے رہتے تھے۔ یوروپ کے بہت سے ماہرین سربیائوں کی اپنی نسل کی بالادستی کے اصرار پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ سربیا وولن 1990کی دہائی کی خانہ جنگی کی صورت حال دوبارہ پیدا کرناچاہتے ہیں۔یوایس یوروپ الائنس آرگنائزیشن کے رائوف بجروک (Reuf Bajrovic) )کا کہنا ہے کہ سربیائی قیادت وقت کا انتطار کر رہی ہے اور موقع لگتے ہی کوسوو اور بوسنیا میں فوج اتار دے گی۔ دوسری جانب کوسوو اور سربیا کی سرحد پر کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور پچھلے دنوں گاڑیوں کی لائسنس پالیسی کے معاملہ میں سربیا اور کوسوئو میں بندوقیں تنی ہوئی تھیں۔ سربیا کے ذرائع ابلاغ میں لگاتار تصویریں دکھائی جارہی ہیں جس میں مسلح افواج کو سڑکوںپر پریڈ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ حکمراں جماعت اس طرح سربیائی قوم پرستی کے جذبات بھڑکا نا چاہتی ہے۔ رائوف بجروک کا کہنا ہے کہ سربیا کا حلیف روس ہے اور روس میں تربیت یافتہ فوجی سربیا میں تعینات ہیں اور روس یہاں بھی وہی صورت حال پیدا کر رہا ہے جو جارجیا اور یوکرین میں پیدا ہوچکی ہے۔موجودہ صدار ان حربوں سے ملک میں جنگی جنون پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دیگر سابق یوگو سلاویہ ریاستوں میں ماضی کے بھوت کو زندہ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اس وقت کوسوو میں ناٹو کی قیادت والی امن فوج ہے۔ کوسوو امن فورس یا کے ایف او آر کہتے ہیں۔ امریکہ کی فوج اس کا حصہ ہے اور دیگر خطوں کی طرح اس علاقہ میں بھی امریکہ اور روس کی قیادت والے ملک اور افواج ایک دوسرے کی پلک جھپکنے کا انتظار کررہے ہیں۔سرحد پر تناؤ کے مدنظر سربیائی وزیر داخلہ نے دھمکی آمیز انداز میں کہا ہے کہ ہمارے پاس ایم آئی جی29- جنگی جہاز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا اختیار نہیں کہ ہم اپنے ہیلی کاپٹر اور جہاز استعمال کرسکیں ہے۔ جوزف بروز ٹیٹو کی قیادت میں یوگو سلاویہ ایک آزاد ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا۔ آنجہانی ٹیٹو کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے 6خطوں سرب، کروشیا، بوسینائی مسلم، البانیہ اور سلونس متحدہ ہوتے تھے۔
ٹیٹو نے ان علاقوں میں اتحاد قائم کیا مگر 1980 میں ان کی موت کے بعد یوگو سلاویہ کا بکھراؤ شروع ہوگیا ہے اور ان 6علاقوں میں تشدد کا بازار گرم ہوا۔ 1992میں اقوام متحدہ نے مداخلت کرکے امن قائم کیا اور خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں۔ مگر اس کے باوجود ایک لاکھ افراد جاں بحق ہوئے۔یہ انسانیت کی تاریخ کا بدترین المیہ ہے۔
یوگو سلاویہ میں سرب جمہوریہ، مسلم کروشیائی فیڈریشن بنے۔ بعد ازاں سلوینا اور میسڈونیا الگ ہوئے پھر مونٹگرو بنا۔ 1999میں سربیا میں کوسوو کے مسلمانوں نے البانیہ میں جدوجہد کی اور البانیہ آزاد ملک کے طور پر وجود میں آیا۔ بوسنیاکا سماج بہت پیچیدہ تھا اور یہاں پر سربوں، مسلمانوں اور کروشیائی نسلیں ایک ساتھ اور مل جل کر رہ رہی تھیں۔ جب بوسنیا نے آزادی کے لیے کوشش شروع کی تو دیگر علاقوں میں رہنے والے سربوں نے اس کی سخت مخالفت کی اوڈوان کراڈکچ نے بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشیائی کے قتل عام کی دھمکی دی اور اس کو عملی جامہ بھی پہنایا اور تمام تر کوششوں اور غوں غاں کے باوجود بدترین قتل عام ہوا، مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا گیا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔ اقوام متحدہ کا مساعئی امن بری طرح ناکام ہوتیں اور آخرکار ناٹو افواج نے بوسنیائی سربوں پر بم باری کرکے خون خرابہ روکا اور پھر امریکہ کی
نگرانی میں اس خطے کو بوسنیائی سرب ری پبلک اور مسلم کروٹ فیڈریشن معرض وجود میں آئی جس کو سینٹرل گورنمنٹ ان کو کنٹرول کرتی تھی مگر یہ نامکمل سینٹرل سرکار زیادہ بااختیار نہیں تھی۔ اولذکر دونوں اکائیوں کو زیادہ خود مختاری تھی۔
بوسنیا: انسانیت سوز تاریخ کو دہرانے کی سازش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS