ڈاکٹر سید محمد حسان نگرامی
طب یونانی کی نشاۃ ثانیہ حکیم اجمل خان کا سب سے اہم کارنامہ ہے،حکیم احب عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ماہر تھے،باہری ممالک کے سفر کی وجہ سے ان کا تجربہ بہت وسیع تھا خاص طور سے صحت کے میدان میں انھوں نے جو کچھ دیکھااور سمجھااسے طب میں رائج کیا۔بدلتے حالات پر انکی گہری نظر تھی خوبیوں کو اپنانے اور خامیوں سے پرہیز کرکے نئی راہ دکھائی، اس حوالہ سے طب کی خامیوںکا انھوں نے گہرا مطالعہ کیااور ڈنکے کی چوٹ پرانکو بیان کیااور ہمیشہ وہ کہتے رہے کہ ہم طب کو مکمل Completeاور نقص Lacuna سے آزا دسمجھ کرعہد حاضر Modern Times کے تقاضے نہیں پورا کر سکتے۔
1906ء میں پہلی طبی کانفرنس میں اپنے خیالات کا اس طرح اظہار کیا تھا ’’آج کل ہم لوگوں کو نئی روشنی کے زمانہ میں ایک مقابلہ در پیش ہے۔ طب یونانی کی جو حالت ہمارے ہاتھوں ہو رہی ہے وہ ظاہر ہے۔ہمارے یہاں جدید تصنیف و تالیف کا سلسلہ بند ہے۔نصاب تعلیم میں بہت تھوڑی کتابیں داخل ہیںجو ضروریات زمانہ پر نظر کر کے بالکل کافی نہیں معلوم ہوتیں۔قانون شیخ الرئیس منتہائے تعلیم سمجھا جاتا ہے۔بہت سے نئے امراض پیدا ہوگئے ہیں جن کی تدوین کی ضرورت ہے۔ گیلانی( حکیم علی)نے قانون شیخ کی شرح لکھتے ہوئے ہر عضو کے امراض کی تشریح ختم کر کے آخر میںبہت سے وہ امراض اور ان کے اسباب و علامات اور معالجات اپنی طرف سے اضافہ کیے ہیں جو شیخ نے نہیں لکھے تھے۔ایک اور تآسف کی بات یہ کہ طب یونانی کا بہت بڑا ذخیرہ برباد ہو رہا ہے اور ہم لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں ۔جالینوس کی تمام کتابیں ہمارے نصاب سے چھوٹی ہوئی ہیں،لیکن اس کی قریب قریب کل کتابوں کا ڈاکٹر صاحبان نے ترجمہ کر لیا ہے۔
ہمارے ذخیرئہ ادویہ کی حالت بھی بہت کچھ اضافہ اور اصلاح کی محتاج ہے۔صرف ہندوستان میںبہت سی جڑی بوٹیاں ایسی موجود ہیں اور کوشش سے فراہم کی جا سکتی ہیں جو ہر طرح کارآمد اور مفید ہوں گی،لیکن ہم اس طرف مطلق توجہ نہیں کرتے۔ہمارے تجربات کی یہ حالت ہے کہ جس کے پاس کوئی نسخہ ہوتا ہے وہ اسے بری طرح چھپاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسی کے ساتھ ختم ہو جا تا ہے۔ــ‘ ایک اور جگہ اطباء کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’میں اطباء سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے طب یونانی کے بارے میں مطمئن کر سکتے ہیں کہ اس میں جملہ وہ مسائل موجود ہیں جو زمانہ موجودہ پایے جاتے ہیں۔یقینا بہت سی باتیں ہمارے کورس کے اندر نہیں ہے لیکن طب کے دوسرے ذخیرے میں موجود ہیں،کیا ہم کویہ نہیں کرنا چاہیے کہ بہت سے وہ مسائل جو جدید تحقیقات سے روشنی میں آچکے ہیں ان کو نصاب میںداخل کیا جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ پر لازم اور فرض ہے کہ اپنے کورس میں اصلاح کریں اور جدید تالیفات تیار کر کے اس کو مکمل کر دیں۔جب آب اس راستہ میں قدم رکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سدیدی،نفیسی،حمیات قانون وغیرہ آپ کے لئے کافی نہیں ہیں۔آپ کو پرانی کتب کی کھوج اور تلاش کر کے جدید تحقیقات کے ساتھ ملا کر نیا کورس بنانا ہوگا۔
حکیم صاحب کے یہ اقتباس ہمیں آج بھی دعوت فکر وعمل دیتے ہیں۔افسوس کہ ہم طب جدید کا لبادا پہن کر ڈاکٹر تو بننا چاہتے ہیں مگر اپنی متاع گمشدہ کے جواہرات تلاش کرکے اس پر تحقیق و جستجو کو اہمیت نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے فن کی کاملیت اور جامعیت کا نعرہ اپنے بزرگوں کی شاندار کہانیوں سے آگے نہیں بڑھتا اس کے علاوہ حکیم صاحب بہت سی خصوصیتو ں کے مالک تھے جو آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔
حکیم اجمل خاں بہترین خطیب تھے ان کی تقریریں ملک و ملت کی محبت کی داستان تھیں، انھیں اس حیثیت سے بھی پڑھنا چاہئے،ہندو مسلم اتحاد کے انوکھے ترجمان تھے،وہ کانگریس اور ہندو مہا سبھا دونوں کے صدر رہے نئی نسل کو اسے بھی اپنانا چاہئے۔ یاد رہے کہ علاحدگی پسندی Isolationسے ہم اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے۔
حکیم اجمل خان طب میں جدید تحقیق ، قدیم تحقیق میں نئی سمتوں کی تلاش میں سرگرم رہے ہمیں بھی اپنے مطالعہ کو اس انداز پر آگے بڑھا کر عہد جدید میں علاج کے نئے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔انھوں نے یونانی طب کی نشاۃ ثانیہRentenseکی نئی راہیں متعین کیں طب اور آیوروید کو غیر سائنٹفک Non Scientificبنانے کی انگریزوںکی سازش کے مقابلہ کے لئے،عملی منصوبے پیش کئے۔ دور حاضر میں جدید کے مقابلہ میں ہمیں اپنی افادیت Efficacy کو اور مفید اور موثر بنانا ہوگا اس کے لئے حجامہ Cupping، تعلیقLeeching،مالش Massage، ریاضت Exerciseکے بدلتے طریقوں کو نئے اور آسان انداز سے پیش کر کے سماج اور معاشرہ میں اپنا مقام و معیارStatus بحال کرنا ہوگا۔ بتانے کی ضرورت نہیں آج دوسرے ممالک میں ان طریقوں کو اپنا کر نئے نشانے Target حاصل کئے جا رہے ہیں۔
حکیم صاحب دوائوں کی تیاری بطور خاص مرکبات کے بڑے ہمنوا تھے اس میدان میں بھی انھوں نے تحقیق کی نئی سمتیں متعین کیں یہاں صرف لکھنؤ اسکول کی مفرداتSingle Drugsکے اثراتEffects اور دہلی اسکول کے علاج بالمرکبات Compund Drugsکی افادیت پر بحث کرنا مقصد نہیں ہے ضرورت ہے کہ ہم لکھنؤ طبی اسکول کے علاج بالمفردات بطور خاص گٹھیا، موٹاپا، سفید داغ اور دوسرے مادی امراض میں مفید منضج مسہل تھیراپی کو مشن کی طرح اپنائیں اور بہت سے لا علاج امراض کے لئے بہترین بدلGood Alternateفراہم کریں اسی طرح مرکبات اور دوائوں کی تیاری میں آج کے سماج کی پسند اور مقبولیت Acceptebelity اور ترجیح Preferenceکو سامنے رکھ کر معجون، خمیرہ،اطریفل اور شربت تیار کریں اس طرح ہم مفرد اور مرکب دونوں قسم کی یونانی دوائوں سے پورا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔
حکیم اجمل خاں طبی تنظیم Organization کے حوالہ سے بھی نئے تجربات کے بانیFounderتھے وہ ملک کے حالات کے پیش نظر اور جنگ آزادی میں مشترکCombined حصہ داری Partnershipکے لئے برابر جدوجہدکرتے رہے۔ اس کے لئے انھوں نے ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کیا۔ ہمیں آج بھی اس فکرو خیالPoint of viewکو موثر انداز سے اس طرح اپنانا چاہئے کہ ہم انڈین سسٹم آف میڈیسن کے بینر تلے یونانی طب کے بنیادی دھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے طب جدید کی رعنائیوںGlamoursکے سامنے ایک ٹھوس حکمت عملی Strategy بنا کر نزلہ،گٹھیا،موٹاپا اور جگر کے لئے مفردات کے جوشاندوں کو ٹی بیگTea Bag میں منتقل کر کے اس کے استعمال کو مزید آسان بنائیں۔ دور حاضر میں ذیابیطسDiabetesکے تیزی سے پھیلتے ہوئے خطرات کے پیش نظر ہمیں خمیرہ اور معجون کی جگہ ان سے ملتے جلتے اجزاء Ingredientپر مشتمل نسخوں کو ٹیبلیٹ اور کیپ سول میں پیش کرکے طبی دوائوں کی افادیت کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے۔
ان تمام اوصاف اور خصوصیات کے ساتھ حکیم اجمل خاں طبی اخلاقیات کا بہترین نمونہ تھے حالانکہ وہ اپنے زمانہ میں لمبی اور بڑی تنخواہ اور فیس کی بڑی رقم لیتے تھے،لینا بھی چاہئے اس میں کوئی عیب نہیں لیکن حکیم صاحب کے طرز پر غریب پروری میں ضرورت مندوں کی امداد اور طب کو تجارت کا درجہ نہ دیکر اخلاقیات کا ایسا عملی نمونہ پیش کر کے سماج کو ایک پیغام ینے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ بڑھتی کمیشن خوری،علاج کے نام پر لوٹ کھسوٹ اور جائزناجائز تمام چیزوں کے ذریعہ رقم کی حصولیابی ہمارے رزق سے برکت ختم کرنے اور زندگی سے سکون چھین لینے کا ذریعہ بن سکتی ہے جس میں ہم سب مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔
(سابق ڈپٹی ڈائریکٹر یونانی)
یوم اجمل کے کچھ تقاضے بھی ہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS