بجٹ:عوام کی تکلیفوں کا تسلسل

0

مالی سال2022-23کیلئے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے آج مرکزی بجٹ پیش کیا لیکن توقعات کے برخلاف اس بجٹ میں بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے کوئی ٹھوس اعلان نہیں کیاگیا ہے۔ اپنی 90منٹ کی بجٹ تقریر میں وزیرخزانہ نے اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا ڈنکابجاتے ہوئے جن اصلاحات اور تجاویز کا اعلان کیا ہے، اسے ’ ترقیاتی ‘ کہہ رہی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی بھی اس سال کے بجٹ کو ترقیاتی بجٹ قرار دیتے ہوئے ہندوستانی معیشت کو مضبوطی فراہم کرنے کے علاوہ عام آدمی کیلئے نئے مواقع وضع کرنے والا بجٹ قرار دے رہے ہیں۔وزیراعظم مودی تو اتنے پرامید ہیں کہ انہوں نے اس بجٹ کو موجودہ مسائل کے حل کی کلید اور نوجوانوں کے مضبوط مستقبل کی ضمانت بھی قرار دے دیا ہے۔اس کے برخلاف حزب اختلاف بجٹ کو مایوس کن اورعوام دشمن بتاتے ہوئے اسے سرمایہ دارانہ بجٹ بتارہاہے۔ ویسے بھی حزب اختلاف اچھے کاموں میںتنقیص و تنقیدکا پہلو تلاش کرلیتا ہے۔جیسا کہ اس بجٹ کی بابت بھی کانگریس، ترنمول کانگریس اور دوسری جماعتوں کے سربراہوں نے کیا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ سال2022-23کا یہ ’ ترقیاتی بجٹ‘ ہندسوںکا مجموعہ اور خوشنما لفظوں کا سنہرا جال ہے اور حکومت جی ایس ٹی کی غیرمعمولی وصولی اور معیشت کی بحالی کا فریب دے رہی ہے کیوں کہ اس بجٹ میں محصولات کے خسارہ کا جو تخمینہ بتایاگیا ہے کہ وہ کل گھریلو پیداوار یعنی جی ڈی پی کا6.9فیصد ہے جسے کم کرنے کا نسخہ کیمیا بھی اس بجٹ میں بتایاگیا ہے اور اس عزم کا اعلان کیاگیا ہے کہ اگلے دو برسوں کے بعد یعنی 2025-26میں محصولات خسارہ کم کرکے جی ڈی پی کو4.5فیصد تک لے آیاجائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سال 2022-23 میں حکومت کے کل اخراجات 39.45 کھرب روپے طے کیے گئے ہیں۔یہ اعداد و شمار کھلے تضا د کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔ایک جانب وزیرخزانہ یہ کہہ رہی ہیں کہ جی ایس ٹی کی وصولی میں غیرمعمولی پیش رفت ہوئی ہے اور یہ وصولی 1,40,986کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے اور یہ تیزی سے اقتصادی بحالی کا اشارہ ہے تو دوسری جانب انہوں نے اس کیلئے بڑے چیلنجز ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے۔
اسی طرح جن ترقیات کا اعلان کیاگیا ہے، ان میں زیادہ تر پی پی پی ماڈل یعنی پبلک- پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بات کہی گئی ہے۔یہ لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ نجکار ی کا ایک ہی عمل ہے جسے اس بجٹ میں بڑھاوا دینے کا اعلان کیاگیا ہے۔ ریلوے میں جن سہولتوں کی بات کہی گئی ہے، وہ نجی ادارے فراہم کریں گے اور جو لوگ رقم دے سکتے ہیں، وہی اس سے استفادہ کرپائیں گے لیکن عام آدمی کیلئے اس (ریل) بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔جن400 نئی وندے بھارت ٹرینوں کے چلانے کا اعلان کیاگیا ہے، وہ سب پی پی پی ماڈل پر ہی ہوں گی۔ حتیٰ کہ مال بردار گاڑیوں کا بیڑہ بھی پرائیویٹ کمپنیاں ہی چلائیں گی۔100 پی ایم گتی شکتی کارگو ٹرمینلز کی تعمیربھی اسی پی پی پی ماڈل پر ہوگی۔25ہزار کلومیٹر کی ٹول سڑکوں کی تعمیر کا اعلان بھی اس بجٹ میں شامل ہے جو اسی نجی سرمایہ سے کی جائے گی۔ اس سے عام آدمی کا کوئی بھلا ہوتاہوا نظر نہیںآرہاہے کیوں کہ ان سڑکوں پر چلنے کیلئے ٹول کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنا بھی لازمی ہوگا۔
اسی طر ح ٹیکس خاص کر انکم ٹیکس کے معاملے میں عام آدمی کو کوئی راحت نہیں دی گئی ہے بلکہ اس کے برعکس مرکزی حکومت کے ملازمین میں ٹیکس کی کٹوتی بڑھاکر14فیصد کردی گئی ہے۔تمام قیاس آرائیوں اور اندازوں کے خلاف کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں میں بھی کمی کردی گئی ہے۔ اسی طرح کوآپریٹو سوسائٹیز کیلئے بھی ٹیکس کی شرح 18 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کرنے اور سرچارج کو 12 فیصد سے کم کرکے 7فیصد کرنے کا اعلان کیاگیا ہے۔افسوس ناک بات تو یہ بھی ہے کہ دو ہفتہ قبل ہی آکسفیم نامی بین الاقوامی ادارہ نے یہ اپیل کی تھی کہ کووڈ19-کی وبا سے نمٹنے میں ہونے والے اخراجات اور عا م آدمی کوراحت دینے کیلئے حکومتیں ارب پتیوں پر یکمشت99فیصد ٹیکس لگائیں لیکن آکسفیم کی یہ اپیل نظرا نداز کرتے ہوئے اس پر کوئی بات ہی نہیں کہی گئی ہے۔اپنی90منٹ کی بجٹ تقریر میں بڑھتی بے روزگاری اور مہنگائی کم کرنے کی بابت وزیرخزانہ نے کوئی ایک بات بھی نہیں کہی۔نہ تو منریگا کیلئے کوئی اضافی بجٹ مختص کیاگیا ہے اور نہ ہی کسی نئے روزگار کے منصوبہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ عوام کو جن مسائل کا سامنا ہے، اس پر اس بجٹ میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے حتیٰ کہ متوسط طبقہ کو انکم ٹیکس میں بھی کوئی راحت نہیں دی گئی ہے، اس کے برعکس ڈیجیٹل اثاثوں کی منتقلی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے تحائف پر بھی ٹیکس عائدکرکے متوسط طبقہ پر ایک اور بوجھ ڈالاگیا ہے۔ عوام کیلئے یہ بجٹ راحت رساں اور دکھوں کا مداواہونے کے بجائے ان کی تکلیفوں کا ہی تسلسل ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS