ملکمیں نفرت انگیز اوراشتعال انگیزتقریر کامعاملہ نیا نہیں ہے۔ بہت پرانا معاملہ ہے۔وقت کے ساتھ یہ سماج میں پھوٹ ڈالنے اورووٹ حاصل کرنے کا سب سے آسان اورمؤثر حربہ بن گیا ۔کچھ عرصے سے اس کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ کب، کون، کس کمیونٹی کے خلاف کیا بول دے، کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔الیکشن کے دوران خاص طور سے اس طرح کے بیانات دیئے جاتے ہیں ۔ کچھ بیانات اتنی خوبصورتی اوراشارے وکنائے میں دیئے جاتے ہیں کہ سماج میں پیغام مطلوبہ چلاجاتا ہے، مقصد حاصل ہوجاتا ہے اورگرفت بھی نہیں ہوتی ۔ کچھ کی شکایت الیکشن کمیشن سے کی جاتی ہے تو وقتی طور پرتھوڑی کارروائی ہوجاتی ہے، لیکن وہ کارروائی نفرت انگیز اوراشتعال انگیز بیانات کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ایسی بات نہیں ہے کہ اس طرح کی حرکتوں کے خلاف ماضی میں آواز نہیں اٹھتی تھی،ہمیشہ سے آواز اٹھتی رہی ہے تاکہ اس کا رجحان نہ بڑھے، لیکن صحیح اورمؤثر کارروائی کے فقدان کی وجہ سے ایسے لوگوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ مرنے مارنے اورکسی کمیونٹی کی نسل کشی تک کی باتیں کی جارہی ہیں ۔یعنی نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی کی انتہاہوگئی ہے ۔جس کا تصور آزاد ہندوستان میں کسی نے نہیں کیا ہوگا۔ لیکن اب اس رجحان کے خلاف ٹھوس آواز اٹھی ہے اورقانونی کارروائی شروع ہوئی ہے تولگتاہے کہ بات دور تک جائے گی ۔ اورکئی لوگ زدمیں آسکتے ہیں۔
ہری دواردھرم سنسد میں نفرت انگیز تقریر کامعاملہ صرف ان ہی لوگوںتک محدود نہیں رہا جنہوں نے تقریر کی تھی بلکہ سپریم کورٹ میں دوطرفہ عرضیاں داخل کی گئی ہیں ۔دوسری بات یہ ہے کہ اس معاملہ میںہری دوار کی عدالت میں کارروائی چل رہی ہے اوردہلی ہائیکورٹ نے بھی اسی طرح کے معاملہ میں عرضی سماعت کے لئے قبول کرلی ہے ۔اس سے پہلے معاملہ نے اس وقت پورے ملک کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی جب آئی آئی ٹی بنگلوروکے طلبااوراسٹاف نے وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب بھیج کرخاموشی توڑنے اور کارروائی کی مانگ کی تھی اورسرکردہ شخصیات نے صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند کو مکتوب بھیجا۔ اب سینئرایڈووکیٹ انجناپرکاش اورسینئر صحافی قربان علی نے ہری دوار دھرم سنسدمیں نفرت انگیز تقریرکے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ، تو جواب میں 2ہندوتنظیموں نے عرضی داخل کرکے اس معاملہ میں نہ صرف فریق بننے بلکہ کچھ مسلم لیڈران کی فہرست پیش کرکے ان کے خلاف بھی کارروائی کی مانگ کردی۔ ساتھ ہی انجناپرکاش اورقربان علی کی عرضی کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا ۔ادھر سپریم کورٹ نے 12جنوری کو مرکزی حکومت اورحکومت اتراکھنڈ کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے ۔اس طرح ہری دواردھرم سنسدکے معاملہ میں جس طرح کی پیش رفت ہورہی ہے ، اس سے یہ معاملہ عمومی بنتاجارہا ہے ۔جس کی ضرورت ہے تاکہ جو بھی قصور وار ہیں اوراس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ، ان کے خلاف مئوثر قانونی کارروائی ہو ،ایسے معاملوں سے نمٹنے کے لئے ایک ٹھوس پالیسی بنے اورعدالتی فیصلے مستقبل کے لئے نظیر اورعبرت بنیں۔
غورطلب امرہے کہ سپریم کورٹ میں اب جو عرضی داخل کی گئی ہے ، اس میں یہ مانگ کی گئی ہے کہ نفرت انگیز اوراشتعال انگیزتقریر کی تعریف طے کرنے کے لئے عدالتی جائزہ لیا جائے۔جو بہت ضروری ہے کیونکہ ایسے امورمیں معمولی گنجائش کا بھی ناجائز فائدہ اٹھالیا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں اس کا عام رجحان ہے جس کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ ہری دواردھرم سنسد میں جن لوگوں پر اشتعال انگیز تقریرکرنے کا الزام ہے ، وہ سلاخوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں لیکن اپنے پیچھے قانونی اورعوامی بحث چھوڑگئے۔پورے معاملہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی گلیاروں میں اس پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے ،ورنہ یہ معاملہ اورزیادہ بگڑ جاتا،کیونکہ سیاست کی وجہ سے ہی اس طرح کے معاملے بگڑتے ہیں اورجو لوگ اپنی سیاسی دکان چمکانے یا دوسروں کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں ، ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔بہرحال اس مسئلہ کا مستقل حل یا علاج تلاش کرنے کی ضرورت ہے اوروہ حل یا علاج عدالت سے ہو تو اس سے اچھی بات کیا ہوگی ، اس میں لیت ولعل کی گنجائش کسی کے لئے نہیںرہے گی اورسبھی اس کے پابند ہوں گے ۔
[email protected]
نفرت انگیز تقریرکا معاملہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS