فیروز بخت احمد
صدیوںسے ہندوستانی و ہندو و مسلمان گنگا جمنی تہذیب و ساجھا وراثت کے ذریعہ ہی رہتے چلا آئے ہیں، ٹھیک ایسے ہی جیسے شیر و شکر۔ آپس میں نااتفاقی، ناچاقی اور سرپھٹول سے بہت دور، سبھی ہندوستانی اقوام میں آپسی بھائی چارہ اور یگانگی کا احساس ہوا کرتا تھا۔ یوں تو چُھٹ پُٹ ہندو مسلم جھگڑے فساد چلتے رہے ہیں مگر موٹے طور پر ہندو اور مسلمان پیار محبت سے رہتے چلے آئے ہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ بسا اوقات ووٹ بینک کی سیاست کے مد نظر ہندوستانی اقوام کو مذاہب اور ذات پات میں تقسیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہر سماج میں ملک و بیرون ملک میں کچھ لوگ مذاہب کو لے کر اپنی نفرتوں کی دکانیں سجائے بیٹھتے ہیں اور معصوم عوام الناس ان میں بغیر سوچے سمجھے پھنس جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک دھرم سنسد ہری دوار میں منعقد ہوئی تھی جس میں مسلم قوم کے خلاف یہ زہر افشانی کی گئی کہ پوری قوم کو ہی ختم کر دیا جائے گا۔ یہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے۔ کہنا تو درکنار، ایسا سوچنا بھی ناممکنات میں سے ایک ہے اور یہ بات دل و دماغ میں نصب دشمنی کی عکاسی کرتی ہے۔ جن لوگوں نے بھی اس قسم کا زہر اگلا انہیں شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ وہ کیا کہہ گئے اور ملک و قوم پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں لوگ اس پر تھو تھو کر رہے ہیں بلکہ امریکہ کی پارلیمنٹ میں تو اس کے اوپر ایک پوری میٹنگ ہوگی کہ یہ ہندوستان میں کیا چل رہا ہے! یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان خود ہر تنازع سے نپٹنے کا اہل رہا ہے اور اس سے بھی پار پا لے گا۔ امریکہ کی تو ہمیشہ سے دوسرے ممالک میں مداخلت کی پالیسی رہی ہے۔ وہ کسی بھی حد تک اقوام و ممالک کو آپسی جنگوں میں ملوث کرکے نہ صرف اپنے ہتھیار بیچتا ہے ، بلکہ اس قسم کے حالات کے پورے مزے لیتا ہے ۔
ایسا نہیں کہ ہندو مسلم چپقلش پچھلے زمانوں میں نہیں ہوتی تھی، ہوتی تھی مگر کسی بڑے پیمانے پر نہیں ۔ اگر کچھ نااتفاقی ہو بھی جاتی تو سماج کے سمجھدار و تجربہ کار لوگ اسے پیار محبت سے سلجھا لیتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب عوامی شاعر مفکر و مدبر ، کبیر کا انتقال ہوا، وہ داراشکوہ کی طرح ہندوؤں اور مسلمانوں میں برابر سے مقبول تھے۔ یہی نہیں ، اونچی و نچلی ذاتوں میں ان کا بڑا مقام تھا ۔ راقم الحروف کو الفاظ اونچی و نچلی ذاتیں تحریر کرنے میں نہ صرف کراہیت محسوس ہو رہی ہے بلکہ غم و غصہ کی حالت بھی ہے کیونکہ خدا کی نظر میں نہ کوئی نچلی ذات ہے اور نہ ہی کوئی اونچی ذات۔ اسی طرح سے ہندوستانی قانون میں بھی سبھی مذاہب و ذاتوں کے لوگ برابر مانے گئے ہیں، جو کہ قانون کا ایک بہترین پہلو ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ مسلم قوم میں بھی چھوٹی بڑی ذات کو اپناکر خود کو اشراف و اجلاف میں تقسیم کر لیا ہے۔ آج تو ہزارہا طبقوں میںیہ قوم خود کو تقسیم کر چکی ہے ، جس میں شیخ، صدیقی، پٹھان، منیہار، کنجڑے، سقے اور نہ جانے کیا کیا !
ہاں! تو جب کبیر کا انتقال ہو ا تو ان کی آخری رسومات کے موقع پر ہندو اور مسلمان دونوں آپس میں بھڑ گئے ۔ مسلمان کہنے لگے کہ وہ کبیر کو دفن کریں گے اور ہندوبضد تھے کہ ان کو جلایا جائے گا۔ کبیر زندہ ہوتے تو اس کا بھی حل ڈھونڈ لیتے! بات جب بڑھ گئی اور قابو سے باہر ہونے لگی تو ایک بزرگ نمودار ہوئے اور انہوں نے دونوں فرقوں کو سمجھایا کہ مناسب یہ ہوگا کہ رات کا وقت ہے ، کبیر کے جسم کو ایک چادر سے ڈھانپ دیا جائے اور صبح سبھی لوگ پیار محبت اور آپسی بھائی چارے سے اس مسئلہ کو سلجھا لیں۔ بات بھی ٹھیک تھی اور لوگوں نے اس کو مان لیا۔ اگلی صبح جب لوگ وہاں آئے، کسی نے چادر اٹھاکر دیکھا تو پتہ چلا کہ کبیر کے جسم کی جگہ وہاں پھولوں کا ایک ڈھیر تھا۔ وہی بزرگ جنہوں نے پچھلی رات، لڑائی، جھگڑے کو ٹھنڈا کیا تھا پھر نمودار ہوئے اور انہوں نے وہاں پہنچے عوام سے کہا کہ اب جھگڑے فساد کی کوئی ضرورت نہیں اور دنیا سے وداع ہوتے وقت بھی کبیر نے ہندو مسلم ایکتا کا ایک اجلی پیغام دے دیا۔ اب مسلم یہ کریں کہ ان میں سے آدھے پھولوں کو دفنا دیں اور ہندو بقیہ پھولوں کو اپنے مذہب کی رسومات اصول و ضوابط پر چلتے ہوئے نذر آتش کر سکتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ کبیر والی انسانیت کی رو ختم ہو چکی ہے، آج بھی ہندوستان کے زیادہ تر ہندو و مسلمان اسی راستے پر چل رہے ہیں کہ مذہبی مسئلے مسائل کو پیار محبت سے سلجھا لیا جائے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہری دوار کی دھرم سنسد سے ہندومسلم یگانگت کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ اس کو لے کر کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا کیونکہ ہندوستانی عوام نہ صرف سمجھدارہیں بلکہ اس بات کی شدبد بھی رکھتے ہیں (سوائے چند لوگوں کے) کون انہیں بہکایا یا بھڑکا رہا ہے۔ آج بھی تمام ہندوستانی اقوام کا بڑا طبقہ گنگا جمنی تہذیب کو ہی اپناتا ہے اور مذہب کو لے کرآپس میں کوئی گرماہٹ نہیں کیونکہ زیادہ تر ہندوستانی اس بات کو مان کر چلتے ہیں کہ مذہب ایک ذاتی فعل ہے اور جب وہ سڑک پر نکلتے ہیں تو وہ صرف اور صرف ہندوستانی ہوتے ہیں اور مذہب کو گھر کی طاق پر رکھ کر آتے ہیں ۔
اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آخرکچھ بھگوادھاریوں نے یہ زہر آلود دھرم سنسد کیوں منعقد کی؟ قاعدے سے تو اس کا نام ’اَدھرم سنسد‘ ہونا چاہیے۔ اگر اس کی جڑوں میں گھس کر دیکھا جائے ان لوگوں میں جو کمیاں ہیں وہ تو ہیں ہی مگر کچھ کمیاں ہم مسلموں میں بھی ہیں ، جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ، ہم مسلمانوں نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے کہ کوئی بھی الیکشن ہو ، تمام مسلم تنظیمیں بہ بانگ دہل اس بات کا اشتہار کرتی ہیں کہ اے مسلمانو، بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرگز ووٹ مت دینا۔ عوام الناس کو سمجھایا جاتا ہے کہ کس حلقے میں بی جے پی کے خلاف کون سی پارٹی کے امیدار کو جتایا جائے۔ یہاں پلاننگ یہ کی جاتی ہے کہ بی جے پی کے خلاف جس پارٹی کے بھی امیدوار کی پوزیشن مضبوط ہے، فتح یاب کرایا جائے۔ یہ ٹھیک نہیں کیونکہ پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر عوام الناس کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اچھا اور ایماندار امیدوار کون ہے، بھلے ہی وہ کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ ہو۔ اس مغالطے میںزیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ ووٹنگ فرقہ وارانہ بنیاد پر ہوتی ہے، بی جے پی کا امیدوار جیت جاتا ہے ۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اس کے علاقے کے مسلمانوں نے تو اسے کثیر تعداد میں ووٹ نہیں دیا اور وہ تو اسے ہروانا چاہتے تھے، لہٰذا وہ ان سے کنی کاٹنے لگتا ہے، ان کے کام نہیں کرتا، جو کہ بالکل غلط ہے ۔
اس کے علاوہ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ معاملہ چاہے رام مندر کا ہو، دفعہ 370 کا ہو، سی اے اے کا ہو،یوگ کرنے کا ہو، تین طلاق کا ہو، یونیفارم سول کوڈ کا ہو یا اسی طرح کا کوئی معاملہ ہو اور بھلے ہی سرکار کے احکامات اس کے ساتھ جڑے ہوں، ہماری تمام تنظیمیں، جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیۃ علماء ہند وغیرہ اور کافی بڑی تعداد میں افراد پوری تگ و دو اور طاقت کے ساتھ اس کی مخالفت کرتے ہیں، جس میں اہم رول ایسے مسلم اور خود کو سیکولر کہنے والے غیر مسلم لیڈران کا ہوتاہے جو کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس، بی ایس پی، اے آئی ایم آئی ایم وغیرہ سے ہوتے ہیں، جو بھولے بھالے مسلم ووٹران کو سرکاری پالیسیوں کے خلاف بھڑکا دیتے ہیں، جن کے عوض اب تک لاکھوں ہندو مسلم دنگے ہو چکے ہیں، جان و مال کا بے تحاشہ نقصان بھی ہو چکا ہے۔
مسلمانوں کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے خلاف بولنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ جیسا کہ عام طور سے مشہور ہے کہ یہ لوگ مسلم مخالف ہیں ، بالکل غلط معاملہ ہے۔ آر ایس ایس دنیا کی سب سے بڑی منظم تنظیم ہے جو ہندوستان کو وشوگرو یعنی دنیا کا بہترین ملک بنانے کی خواہش رکھتی ہے اور بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے اور کہیں سے کہیں تک، یہ لوگ نہ تو مسلمانوں کے دشمن ہیں اور نہ ان کے مخالف ہیں جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نعرے ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘، کے تحت انہوں نے مسلمانوں کے لیے کہا تھا، ’مسلم ہماری سنتان کی طرح ہیں اور ہم ان سے برابری کا سلوک کرنا چاہتے ہیں‘ اور یہ ،’ہم ہر مسلم کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
حالانکہ راقم الحروف اس بات کو مان کر چلتا ہے کہ انسان کسی بھی مذہب کو مانے مگر اسلام اور قرآن اس بات کی تعلیم دیتے ہیں : ترجمہ: تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین۔ اسلام اور قرآن ہمیں یہ تعلیم بھی فراہم کرتے ہیں کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں وغیرہ۔ سبھی کچھ تو اسلامی احکامات، احادیث اور حضور ﷺ نے ہم لوگوں کو، یعنی مسلمانوں کو امن و آشتی کا پیغام دے رکھا ہے مگر جیسا کہ ایک محاورہ عام ہے کہ حضر ت محمد ﷺ کو تو مانتے ہیں مگر ان کی نہیں مانتے۔ شاید راقم الحروف قارئین کو اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہو۔
[email protected]