محمد حنیف خان
حقوق انسانی کی تنظیمیں وقتاً فوقتاً دنیا کی حکومتوں اور اہل اقتدار کو آئینہ دکھاتی رہتی ہیں،ان کو یہ آئینہ دکھایا جانا اس لیے ضروری ہوتا ہے تاکہ ان کے قول و فعل کا تضاد ان کے سامنے آتا رہے اور وہ خود سے شرمسار ہو کر عوام کے لیے کچھ کرنے پر مجبور ہوں۔حکومت اور اعیان حکومت ہمیشہ صرف اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں، وہ کبھی اپنی غلطیوں، کمیوں اور خامیوں کو اجاگر نہیں کرتے،اس کے برعکس وہ عوام کے پیسے سے عوام کے درمیان یہ تشہیر کرتے ہیں کہ وہ تو ان کے لیے وقف ہیں اور صرف ان کی ہی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں،اس ضمن میں اگر ہندوستان کی حکومت کو دیکھا جائے تو اس نے اس طرح کے اشتہارات پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی ہے،خاص طور پر اترپردیش میں اس جانب سب سے زیادہ توجہ دی گئی اور اشتہارات کی ایک سیریز جاری کی گئی جس کا عنوان تھا ’فرق صاف ہے‘۔ایک انٹرویو میں ڈپٹی سی ایم نے اس عمل کو بھی ’جن کلیان کاری ‘ بتانے سے پرہیز نہیں کیا۔اس کے برعکس حقوق انسانی تنظیمیں حکومتوں کو آئینہ دکھاتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ کس طرح وہ عوامی جذبات و ضروریات کو درکنار کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کا نفاذ کرتی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی حقوق انسانی سے متعلق عالمی رپورٹ 2022منظر عام پر آچکی ہے،جس میں اس نے دنیا کے سو ممالک کو اپنے مطالعے اور تجزیے کا موضوع بنایا ہے۔اس رپورٹ میں اقلیتوں،حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والوں، حکومت سے اختلاف کرنے اور اس کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف حکومت کی کارروائیوں کو بیان کرکے حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح حکومتیں ان کے حقوق سلب کر رہی ہیں۔ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 32ویں رپورٹ میں ہندوستان کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی قلعی کھولی ہے۔اس نے بتایا ہے کہ کس طرح دونوں نے مل کر انسداد دہشت گردی ایکٹ استعمال کرکے مخالفین کی زبانیں بند کی ہیں۔ اقلیتوں کے ضمن نے اس رپورٹ میں مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے رویے کو بالخصوص بیان کیا گیا ہے۔اسی طرح دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں اور بی جے پی کارکنان کے ذریعہ مسلمانوں پر حملے اور ان کو زد و کوب کیے جانے پر پولیس کی ناکامی کو اجاگر کرتے ہوئے اسے حکومت کی منشا سے تعبیر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کشمیر اور آسام کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کی گئی ہے جبکہ حکومت یہ کہہ کر اپنے منھ میاں مٹھو بن رہی ہے کہ اب وہاں دہشت گردی کے واقعات رونما نہیں ہو رہے ہیں۔19ماہ تک انٹرنیٹ پر پابندی،سید علی شاہ گیلانی کے انتقال کے بعد نقل و حرکت پر پابندی اور دو دن تک ہر طرح کے ذرائع ابلاغ اور رابطے پر پابندی کا بالخصوص ذکر کیا گیا ہے جسے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے زمرے میں رکھاگیا ہے۔اشرف صحرائی کی کسٹڈی میں موت پر اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کے ذریعہ جولائی میں حکومت کو خط لکھا گیا تھا کہ اس کی فوری جانچ کرائی جائے،اسی طرح جموں و کشمیر کے سیاسی لیڈران کی نظر بندی کو بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزی تصور کیا گیا ہے۔رپورٹ میں اس دوران کشمیر میں جو بھی اہم واقعات ہوئے اور ان میں عوام کو دبانے اور انسانی حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی، اسے اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے،جس میں کشمیر میں صحافیوں پر پابندی اور ان کے خلاف تشدد وغیرہ بھی شامل ہے۔حکومت کو کشمیر کے ضمن میں یہ رپورٹ ضرور دیکھنا چاہیے تاکہ جن باتوں کو وہ ’قومی تحفظ‘ اور ملک کی سلامتی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتی ہے، اس کو معلوم ہو کہ در اصل یہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہے۔اسی طرح رپورٹ میں آسام اور جنوب مشرقی ریاستوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جہاں27قتل کیے گئے جبکہ 40سے زائد زخمی ہوئے، مسلمانوں کی بستیاں اجاڑی گئیں، مسجدیں جلائی گئیں، پولیس کے سامنے ہندوتووادی تنظیموں اور ان کے کارکنان نے زد و کوب کیا اور وہ نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہی بلکہ ان کا ساتھ بھی دیا۔پولیس ایکشن میں آسام میں ایک مسلمان کی موت اور اس کی لاش پر ایک متشدد فوٹوگرافر کے رقص کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے،اسی طرح اس پورے علاقے میں پولیس کے طریق کار اور اقلیتوں کے جان و مال کے نقصان کی جانچ کرنے والے وکلا پر جس طرح یواے پی اے کا نفاذ کیا گیا، اس کو بھی تنقیدکا نشانہ بنایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے2021میں پولیس کسٹڈی میں 143 اموات 104 ماورائے عدالت قتل کے کیس درج کیے ہیں۔یہ اعداد و شمار ایک جمہوری ملک میں وہاں کے طرز حکومت کی گواہی دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح حکومت نے پولیس کو چھوٹ دے رکھی ہے اور یہ چھوٹ یوں ہی نہیں دی گئی ہے بلکہ اس میں وہ خود شامل ہے،جس کی سب سے بہترین مثال کانپور کا بکرو معاملہ ہے جس میں پولیس نے ملزم کی موت کو مڈبھیڑ بتایا اور آج تک ’گاڑی پلٹنے کا بیانیہ ‘ کسی بھی مخالف کو ڈرانے کے لیے چلایا جاتا ہے۔عدالتیں بھی اس طرح کے معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے ان کاغذی شہادتوں کو ہی تسلیم کرتی ہیں جو حکومت اور پولیس پیش کرتی ہے،حالانکہ عدالتوں کو بھی معلوم ہے کہ اس طرح کی شہادتیں تیار کرنا اور اپنے مطابق جانچ کی رپورٹ لینا حکومتوں کے لیے مشکل نہیں ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح حکومتوں نے تعزیرات ہند کی دفعہ 197کو عمل میں لاتے ہوئے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہیں کی کیونکہ اس سیکشن کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس ضمن میں 2004 میں عشرت جہاں معاملے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مارچ میں گجرات حکومت نے تین پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ اور کارروائی کی اجازت نہیں دی۔
رپورٹ کے مطابق حکومت اعتراض اور اختلاف کو پسند نہیں کرتی ہے،ایسا کرنے والوں کے خلاف اس نے شتر بے مہار کی طرح اپنی ایجنسیوں کا استعمال کیا ہے،اس کے ذریعہ اس نے ڈرا دھمکا کر زبانیں خاموش کرنے کی کوشش کی ہے،اسی طرح متعدد دفعات کے تحت مقدمے درج کرکے لوگوں کو زبان کھولنے سے روکا گیا ہے،اس ضمن میں اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے دیوی دیوتاؤں کی توہین کی ہے۔رپورٹ میں بی جے پی،بجرنگ دل،وشو ہندو پریشد وغیرہ کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اس رپورٹ میں نشانہ بنائے گئے صرف مسلمانوں کا ذکر کیا گیا ہے چونکہ ہندوستان میں اس وقت مسلمان ہی ان کے نشانے پر ہیں، اس لیے ان کا ذکرخاص طور پر کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ عیسائیوں،دلت،قبائلی اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کو بھی موضوع بنایا گیا ہے، ان کو بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
حکومت نے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘ کا نعرہ دیا ہے لیکن یہ نعرہ ابھی تک نعرے سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے،کیونکہ بی جے پی کی حکومتیں خواہ مرکزی ہو یا ریاستی ایک خاص ایجنڈے پر چل رہی ہیں، وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اقلیتوں اور راہ میں آنے والے ہر فرد و جماعت کو ٹھکانے تو لگا ہی رہی ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ سماج سے آپسی محبت اور رواداری کو بھی بے دردی سے ختم کر رہی ہیں،جو مستقبل کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے،اسی طرح مشنری کا غلط استعمال کرکے اس پورے نظام کو تباہ کیا جارہا ہے جو ایک انسانی معاشرے کی بھلائی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افرادجو اپنے ایجنڈے کے لیے ملک و عوام کو برباد اور وسائل کو تباہ کر رہے ہوں ان کو ہر موقع پرسبق سکھایا جائے اور بتایا جائے کہ ہندوستان کی مٹی میں محبت، رواداری، انصاف اور حقوق انسانی کی پاسداری ہے۔
[email protected]
حقوق انسانی کی پاسداری پر ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS