بہت پرانی کہاوت ہے کہ جو گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلتا ہے، وہ انگلی ٹیڑھی کرنے پر نکل آتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی سے لے کر کئی خاص مواقع تک میں یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے لیکن آسان تجربہ سے نکلی یہ بات کہنے والے کو بھی شاید اس بات کا اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ کبھی یہ فلسفہ دو ممالک کے آپسی تعلقات پر بھی نافذ ہوگا۔
گزشتہ کچھ برسوں میں پاکستان کے خلاف ہندوستان کے رویہ میں نئے سرے سے آئی سختی کے برعکس جب وہاں کی نئی قومی سلامتی پالیسی کو رکھ کر دیکھا جائے تو آئینہ سے جو تصویر نکل کر آتی ہے، اس پر یہ بات صدفیصد کھری اترتی ہے۔ اس نئی پالیسی کی رپورٹ کو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نیازی نے اسی ہفتہ جاری کیا ہے۔ ویسے اس پالیسی کے اصل دستاویز 100صفحات پر مشتمل ہیں لیکن فی الحال اس کے 50غیر خفیہ یعنی نان کلاسیفائڈ پیج کو ہی عام کیا گیا ہے۔ اس میں پڑوسیوں کے ساتھ امن اور معاشی ڈپلومیسی کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نقطہ بتایا گیا ہے۔
تو اس میں بڑی بات کیا ہے ؟ دراصل اس دستاویز میں تاریخی غلطیوں کو سدھارنے کی ایسی کئی ’پتلی گلیاں‘ ہیں، جنہیں پاکستان اپنی ہیکڑی، ناسمجھی اور تباہ کن سوچ کے سبب اب تک جھٹلاتا رہا ہے۔ اس میں دو بڑی باتیں ہیں پہلی تو اگلے 100برسوں تک ہندوستان کے ساتھ دشمنی نہ کرنے کا ’عہد‘ ہے۔ دوسری ہندوستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایسی ’بے چینی‘ ہے کہ اس کے لیے پاکستان کی سیاسی جماعت اپنے سیاسی وجود کی سب سے بڑے محور کشمیر مسئلہ کو بھی طاق پر رکھنے کے لیے تیار ہے۔ شرط ہے کہ ایٹمی طاقت رکھنے والے دونوں پڑوسیوں کے مابین بات چیت میں پیش رفت ہو۔
بات چیت میں پیش رفت تب ہوگی جب بات چیت شروع ہوگی اور یہیں گھی نکالنے کے لیے انگلی ٹیڑھی کرنے والا محاورہ صادق نظر آتا ہے۔ ہندوستان سے جس بات چیت کے لیے پاکستان بے چین ہورہا ہے، وہ جامع مذاکرات تو ہندوستان نے 2013سے روک رکھے ہیں۔ باہمی مذاکرات بھی 2016کے پٹھان کوٹ حملہ سے بند ہیں۔ کرتارپور کاریڈور کا معاملہ بیشک مستثنیٰ کہا جاسکتا ہے، لیکن اس کی وجوہات دوسری ہیں۔ ویسے پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ تو ہندوستان نے 26/11کے ممبئی حملے کے بعد بھی روکا تھا، لیکن پھر کچھ وقت بعد بین الاقوامی دباؤ میں ہندوستان نے اس روک کو ہٹالیا تھا۔ سال2015میں اپنی پہلی مدت کار کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے بھی نوازشریف فیملی کی شادی کی تقریب میں اچانک شامل ہوکر دوستی کی ایک نئی لکیر کھینچنے کی کوشش کی تھی لیکن ہندوستان کا ’دوستانہ‘ شاید پاکستان کو راس نہیں آیا۔ اس کے بعد شروع ہوا انگلی ٹیڑھی کرنے کا عمل۔ پٹھان کوٹ میں جب پاکستان نے ہندوستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، تو ہندوستان نے جس نئی روایت کی شروعات کی، اس کے سامنے پاکستان کی کوئی دال نہیں گل پائی اور اس بات کا کریڈٹ وزیراعظم نریندر مودی کو دیا جانا چاہیے۔ جنہوں نے قومی مفاد میں دہشت گردی جاری رہنے تک بات نہیں کرنے کے اپنے فیصلہ پر قائم رہتے ہوئے نہ صرف اس پر عمل درآمد کیا، بلکہ وہ اس معاملہ پر ہندوستان کے حق میں دنیا کے باقی ممالک کو بھی متفق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ مودی حکومت کے سخت رویہ کا ہی کمال ہے کہ آج ایک طرف امریکہ اور مسلم ملک پاکستان سے مسلسل دور ہوتے جارہے ہیں، وہیں دہشت گردی کی فنڈنگ کے ثبوت ملنے کے بعد عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی پاکستان کو اور قرض دینے سے انکار کردیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دہشت گردانہ سوچ کا غلام پاکستان اب معاشی طور پر بھی آزاد نہیں رہا ہے۔ اس کی کنگالی کا عالم یہ ہے کہ آج جتنی اس کی کل جی ڈی پی نہیں ہے، اس سے زیادہ اس پر قرض ہوگیا ہے۔ اس معاشی صورت حال کا آسان ترجمہ یہ ہے کہ اگر آج پاکستان خود کو فروخت بھی کردے، تو اس کے قرض کی ادائیگی نہیں ہوسکتی۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کا قرض اور دین داریاں 50لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہوگئی ہے اور وہ ایک بار پھر ایک ارب ڈالر لون کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دروازے پر جھولی پھیلائے کھڑا ہے۔ ایسے میں اگر ہندوستان سے تعلقات بحال ہوجائیں، تو پاکستانی معیشت کو کافی راحت مل سکتی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین دوطرفہ کاروبار کی صلاحیت 10بلین ڈالر سے 20بلین ڈالر لگائی گئی ہے۔ بیشک اس سے پاکستان کی دقتیں فوراً حل نہیں ہوں گی، لیکن کم سے کم اسے اپنی ہی 100سال کی طے کی ہوئی میعاد کا بھی انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
پاکستان کی نئی پالیسی کے مدنظر یہ دھیان رکھنا بھی اہم ہے کہ آزادی کی پہلی تین دہائیوں تک اس کی سلامتی پالیسی ہندوستان پر ہی مرکوزرہی تھی۔ 1948، 1965 اور1971 کی تینوں جنگیں ہندوستان مخالف جنون والی اسی پالیسی کے نتائج ہیں۔ پاکستانی فوجی قیادت کی جہادی ذہنیت وہاں کے معاشرہ اور معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 22مرتبہ بیل آؤٹ کی ذلت جھیلنے کے علاوہ بھی پاکستان کو کئی مرتبہ اپنے قومی وقار کو پہلے امریکہ اور اب چین کے ہاتھوں گروی رکھنا پڑا ہے جو بتاتا ہے کہ ایک ساتھ آزاد ملک کا سفر شروع کرنے کے بعد بھی پاکستان کس طرح اپنی قیادت کی غلط سوچ اور سیلف گول کے رجحان کے سبب ہندوستان سے ہر محاذ پر کتنا پچھڑچکا ہے۔
خیر، دیر آید، درست آید۔ پاکستان کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ نئی پالیسی کے ذریعہ معاشی سیکورٹی کو جامع سیکورٹی کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ سوچ یہ ہے کہ روایتی تحفظ کو مضبوط بنانے اور اس میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے پہلے انسانی وسائل کو مضبوط بنانا ضروری ہے۔ اس لیے پاکستان کی نئی سلامتی پالیسی کاغذات پر بیشک اس کے رُخ میں تبدیلی کی امید پیدا کرتی ہو، لیکن گزشتہ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک نئی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ نئی پالیسی کا سب سے بڑا پینچ یہ ہے کہ اس میں ہندوستان کی موجودہ مودی حکومت کے رہتے ’میل-ملاپ‘ کے کسی بھی امکان کو سرے سے خارج کیا گیا ہے۔ یہ اس پرانے راگ کو الاپنے کا نیا کردار ہوسکتا ہے جس میں پاکستان اس بات کا رونا روئے گا کہ وہ تو علاقائی امن و استحکام کے لیے کوشاں ہے، لیکن ہندوستان ہی اس میں تعاون نہیں کررہا ہے۔ نئی پالیسی دہشت گردی کو تقویت دینے کے داغ اور غور و خوض سے توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ ظاہری طور پر یہ ہندوستان کی معاشی ترقی اور سنہرے مستقبل کے سہارے اپنی معاشی بدحالی کو سدھارنے کی قواعد تو ہے ہی۔ ویسے بھی پاکستان کی تاریخ ہمیشہ بحران میں گھری رہی ہے اور فوجی دخل ایسا ہے کہ عوام کے ذریعہ منتخب کوئی بھی وزیراعظم آرام سے اپنی پانچ سال کی مدت کار پوری نہیں کرپایا۔ ایسے میں پانچ سال کے لیے طے کی گئی نئی سلامتی پالیسی کیسے اپنی میعاد اور اپنے ہدف میں کامیاب ہوگی، ابھی تو یہی بڑا سوال ہے۔ ہاں اس پالیسی سے اس بات کا جواب ضرور ملتا ہے کہ پاکستان کے تعلق سے موجودہ ہندوستانی قیادت کی سوچ صحیح راستہ پر ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
دیر آئے مگر کتنا درست آئے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS