پنکج چترویدی
2014
میں شروع ہوئی صفائی مہم کی کامیابی کے دعوے اور اعداد و شمار میں جو کچھ بھی فرق ہو لیکن یہ بات سچ ہے کہ اس سے عام لوگوں میں صاف صفائی کے تئیں بیداری ضرور آئی۔ اب شہری علاقوں پر مرکوز صفائی مہم کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شہر اور قصبے میں داخل ہونے کے لیے بچھائی گئیں ریل کی پٹریاں یہ مثال ہیں کہ یہاں ابھی صفائی کے تئیں غیرسنجیدگی برقرار ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندوستانی ریل ہمارے سماج کا اصل آئینہ ہے۔ اس میں انسان نہیں، بلکہ ملک کے خوشی-غم، خوشحالی، غریبی، ذہنیت، بنیادی سلوک جیسی کئی چیزیں سفر کرتی ہیں۔ ہندوستانی ریل 66 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے راستوں کے ساتھ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جس میں ہر روز 12 ہزار سے زیادہ مسافر ریل اور کوئی 7 ہزار مال گاڑیاں شامل ہیں۔ اندازے کے مطابق، اس نیٹ ورک میں ہر روز کوئی 2 کروڑ 30 لاکھ مسافر اور ایک ارب میٹرک ٹن سامان کی ڈھلائی ہوتی ہے۔ افسوناک ہے کہ پورے ملک کی ریل کی پٹریوں کے کنارے کی گندگی اور کوڑا سسٹم کو نظرانداز کیے جانے کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کئی جگہ تو پلیٹ فارم بھی ناجائز قبضوں، ناپسندیدہ سرگرمیوں اور کوڑے کے ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔
ملک کی راجدھانی دہلی سے آگرہ کے راستے جنوبی ریاستوں، سونی پت-پانی پت کے راستے پنجاب، غازی آباد کی جانب سے مشرقی ہندوستان، گڑگاؤں کے راستے جے پور کی جانب جانے والے کسی بھی ریلوے ٹریک کو دہلی شہر کے اندر ہی دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ملک کے اصل کچرا گھر تو ریل کی پٹریوں کے کنارے ہی چل رہے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ سبھی راستے غیر ملکی سیاحوں کے مقبول راستے ہیں اور جب دہلی آنے سے 50 کلومیٹر پہلے سے ہی پٹریوں کے دونوں طرف کوڑے، گندے پانی، بدبو کا انبار نظر آتا ہے تو ان کی نگاہ میں ملک کی کیسی شبیہ بنتی ہوگی۔ سرائے روہیلا اسٹیشن سے جے پور جانے والی ٹرین لیں یا امرتسر یا چنڈی گڑھ جانے والی شتابدی، جن میں بڑی تعداد میں این آر آئی بھی ہوتے ہیں، گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ان راستوں پر ریلوے ٹریک سے متصل جھگیاں، دور دور تک کھلے میں رفائے حاجت کے لیے جاتے لوگ ان اشتہارات کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں جن میں حکومت کی صفائی مہم کی حصولیابیوں کے اعداد و شمار چنگھاڑتے دکھتے ہیں۔ اصل میں ریل پٹریوں کے کنارے کی کئی ہزار ایکڑ اراضی غیر قانونی قبضے کی زد میں ہے۔ ان پر سیاسی سرپرستی حاصل زمین مافیا کا قبضہ ہے جو کہ وہاں رہنے والے غریب محنت کش لوگوں سے وصولی کرتے ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد میں لوگوں کے روزی کمانے کا ذریعہ کوڑا بیننا یا کباڑی کا کام کرنا ہی ہے۔ یہ لوگ پورے شہر کا کوڑا جمع کرتے ہیں، اپنے کام کا سامان نکال کر فروخت کر دیتے ہیں اور باقی کا ریل پٹریوں کے کنارے ہی پھینک دیتے ہیں جہاں آہستہ آہستہ گندگی کے پہاڑ بن جاتے ہیں۔ یہ بھی آگے چل کر نئی جھگی کا میدان ہوتا ہے۔
دہلی سے فریدآباد کے راستے کو ہی لیں، یہ پورا صنعتی علاقہ ہے۔ ہر کارخانے والے کے لیے ریلوے کی پٹری کی طرف کا علاقہ اپنا کوڑا، گندا پانی وغیرہ پھینکنے کی مفت جگہ ہوتی ہے۔ وہیں ان کارخانوں میں کام کرنے والوں کا گھر، معمول کی فراغت کا بے روک ٹوک گلیارا بھی ریل پٹریوں کی جانب ہی کھلتا ہے۔
کچرے کا نمٹارہ پورے ملک کے لیے مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ ملک کے کل کوڑے کا محض پانچ فیصد کا ایمانداری سے نمٹارہ ہوپاتا ہے۔ راجدھانی دہلی کا تو 57 فیصد کوڑا راست یا بالواسطہ طور پر جمنا میں بہا دیا جاتا ہے یا پھر ریل کی پٹریوں کے کنارے پھینک دیا جاتا ہے۔ راجدھانی دہلی میں کچرے کا نمٹارہ اب ہاتھ سے باہر نکلتا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس وقت اکیلے دہلی شہر 16 ہزار میٹرک ٹن کچرا پیدا کر رہا ہے اور اس کے اپنے بڑے گڑھے پوری طرح بھر گئے ہیں اور آس پاس 100 کلومیٹر دور تک کوئی نہیں چاہتا کہ ان کے گاؤں-قصبے میں کوڑے کا انبار لگے۔ کہنے کو دہلی میں پانچ سال پہلے پالیتھین کی تھیلیوں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے لیکن آج بھی روزانہ 583 میٹرک ٹن کچرا پلاسٹک کا ہی ہے۔ الیکٹرانک اور میڈیکل کچرا تو یہاں کی زمین اور پانی کو زہر بنا رہا ہے۔ گھر گھر سے کوڑا جمع کرنے والے اپنے مطلب کا مال نکال کر ایسی سبھی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لیے ریل کی پٹریوں کے کنارے ہی جاتے ہیں، کیونکہ وہاں کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے۔
پٹریوں کے کنارے جمع کچرے میں خود ریلوے کا بھی بڑا رول ہے، بالخصوص شتابدی، راجدھانی جیسی اے سی گاڑیوں میں، جس میں مسافروں کو لازمی طور پر 3 سے 8 تک کھانا پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان دنوں پورا کھانا پیکڈ اور ایک بار استعمال ہونے والے برتنوں میں ہی ہوتا ہے۔ یہ ہر روز ہوتا ہے کہ اپنی منزل آنے سے پہلے کھانے پینے کا انتظام دیکھنے والے ملازمین بچا ہوا کھانا، بوتل، پیکنگ سامان کے بڑے بڑے تھپّے چلتی ہوئی ٹرین سے پٹریوں کے کنارے ہی پھینک دیتے ہیں۔ اگر ہر دن ایک راستے پر دس ڈبوں سے ایسا کچرا پھینکا جائے تو ظاہر ہے کہ ایک سال میں اس ویرانے میں پلاسٹک جیسی ختم نہ ہونے والی چیزوں کا انبار ہوگا۔ کاغذ، پلاسٹک، دھاتوں جیسا بہت سا کوڑا تو کچرا بیننے والے جمع کر کے ری سائیکلنگ والوں کو فروحت کر دیتے ہیں۔ سبزی کے چھلکے، کھانے پینے کی چیزیں، مرے ہوئے جانور وغیرہ کچھ وقت میں سڑگل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا بہت کچھ بچ جاتا ہے جو ہمارے لیے شدید بحران کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ دہلی تو محض ایک مثال ہے، ٹھیک یہی حال اندور یا پٹنہ یا بنگلورو یا گواہاٹی یا پھر الٰہ آباد ریلوے ٹریک کا بھی ہے۔ شہر آنے سے پہلے گندگی کا انبار پورے ملک میں ایک جیساہی ہے۔ راجدھانی دہلی ہو یا پھر دوردراز قصبے کا ریلوے پلیٹ فارم، انتہائی گندے، بھیڑبھاڑ، غیرمنظم اور ناپسندیدہ لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں جن میں بھکاری سے لے کر غیرقانونی وینڈر اور مسافر کو چھوڑنے آئے رشتہ داروں سے لے کر طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ریلوے کی صفائی کے محدود وسائل کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔ کچھ سال قبل بجٹ میں ’ریلوے اسٹیشن ڈیولپمنٹ کارپوریشن‘ کی تشکیل کا اعلان کیا گیا تھا جس نے ریلوے اسٹیشن کو ہوائی اڈے کی طرح چمکانے کے خواب دکھائے تھے۔ کچھ اسٹیشنوں پر کام بھی ہوا لیکن جن پٹریوں پر ریل دوڑتی ہے اور جن راستوں سے مسافر ریلوے اور ملک کی حسین شبیہ دیکھنے کا تصور کرتا ہے، اسے بہتر بنانے کیلئے ریلوے کے پاس نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی خیال۔
[email protected]
کوڑے دان بنا ہے ریلوے ٹریک
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS