چین کے توسیع پسندانہ عزائم جگ ظاہر ہیں۔اپنے ان عزائم کی تکمیل کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتا ہے۔پاکستان، نیپال، سکم اور سری لنکا جیسے چھوٹے ممالک کو سرمایہ کاری کے ذریعہ اپنا زیر نگیں بنانااور پڑوسیوں کی زمین پر قبضہ کرنا جیسی مذموم کارروائی سے بھی اسے کبھی گریز نہیں رہاہے۔وقتاًفوقتاً وہ اپنی اس جارحیت کا رخ ہندوستان کی طرف بھی کردیتا ہے لیکن ہندوستان نے ہمیشہ ہی چین کو دندان شکن جواب دیا ہے اور اسے اس کی سرحدوں تک محدود رکھنے کا کام کیا ہے۔نئے سال کے موقع پر جب ہندوستان اور چین کے فوجی ایل اے سی کے مختلف مقامات پرایک دوسرے کو مٹھائی اور مبارک باد دے رہے تھے اور یہ امید کی جارہی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تنائو اور کشیدگی کم ہوگی کہ چین نے ایک ویڈیو جاری کرکے اس امید پر پانی پھیر دیا۔چین کے ایک تصدیق شدہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے وادی گلوان میں چینی پرچم لہرانے کا ایک ویڈیو جاری کیاگیا ہے۔ اس ویڈیو میں کیپشن میں لکھا ہے کہ 2022 کے پہلے دن چین کا جھنڈا وادی گلوان پر لہرا رہا ہے۔ یہ جھنڈا اس لیے خاص ہے کیونکہ یہ کبھی بیجنگ کے تیانمن اسکوائر پر لہرایا جاتا تھا۔
وادی گلوان وہ علاقہ ہے جہاں 5 جون 2020 کو ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ ہوئی تھی۔جس میں 20 ہندوستانی فوجی شہید ہوگئے تھے اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ اگرچہ سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان کئی دور کی ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں ممالک کی فوجیں بھی کئی علاقوں سے پیچھے ہٹ چکی ہیں لیکن چین کو یہ صورتحال منظور نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے ایک بار پھر پروپیگنڈہ وار کے ذریعے ہندوستان کو مشتعل کرنے کی مذموم کوشش کی۔ چین کا ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد مودی حکومت کو حزب اختلاف کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔حکومت سے پوچھا جارہا ہے کہ ہندوستان اور چین کا یہ کیسا رشتہ ہے؟ آخر حکومت چین کی ایسی حرکتوں کا جواب کیوں نہیں دیتی؟ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی ٹوئٹ کرکے کہا کہ وادی گلوان پر ہندوستان کاترنگا ہی اچھا لگتا ہے، چین کو جواب دینا ہوگا۔
اب یہ راہل گاندھی کے ٹوئٹ کا اثر تھا یا پھر کچھ اور کہ اگلے ہی دن ہندوستان نے چین کو اس پروپیگنڈہ وار کا دندان شکن جواب دے دیا۔ چینی فوجیوں کی پرچم لہرانے کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہندوستانی فوجیوں کی آج کچھ تصاویر منظر عام پر آگئی ہیں۔ اس میں ہندوستانی فوجی نئے سال پر گلوان میں ترنگا جھنڈا لہراتے نظر آ رہے ہیں۔ ہندوستان کی فوج کا بیان بھی آگیا ہے کہ وادی گلوان میں چین نے جس علاقے میں پرچم لگایا اور لہرایا وہ ہمیشہ سے اس کے قبضے میں رہا ہے اور اس علاقہ کے سلسلے میں یہ کوئی نیا تنازع نہیں ہے۔ فوج کے اس بیان کا صاف مطلب یہ ہے کہ چین نے اشتعال دلانے کیلئے یہ ویڈیو جاری کی ہے۔ ہر چند کہ اب ترنگا لہرائے جانے کا ویڈیو سامنے لاکر ہندوستان نے اس معاملہ کی وضاحت کردی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کو چین کی اس اشتعال انگیزی سے کبھی نجات بھی ملے گی۔ ابھی چند روز قبل ہی چین نے اروناچل پردیش کے 15مقامات کے نام منڈیرین (چینی) تبتی اور رومن میں جاری کیے تھے اور یہ بھی کہاتھا کہ مستقبل میں بھی نام اسی طرح تبدیل کیے جاتے رہیں گے۔ جس کے بعد ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ریمارک دیا تھاکہ اروناچل پردیش ہمیشہ سے ہندوستان کا اٹوٹ حصہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اروناچل پردیش میں نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔
چین کی یکے بعد دیگرے ایسی حرکتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے جن علاقوں پر چین نظررکھے ہوئے ہے وہاں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کیلئے وہ ایسی ہی حرکتیں کرتا رہے گا۔ تو کیا ایسے میں ہندوستان صرف جواب اور وضاحت ہی کرے گا یا اس سے آگے بڑھ کر چین کو لگام لگانے کی کوئی دوسری سبیل بھی ہے۔
گزشتہ سال وادی گلوان میں ہونے والے تشدد کے بعد حکومت نے چین کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی بات کہی تھی اور چین ساختہ ڈھیر سارے کمپیوٹر ایپلی کیشنز پر پابندی لگادی گئی تھی۔ ’ووکل فار لوکل‘ کا بھی خوب ڈنکابجایاگیاتھا، چین ساختہ سامانوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے سودیشی اشیا اپنانے کی مہم چلائی گئی تھی۔لیکن پھر یہ خبر بھی آئی کہ ہندوستان اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 100 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح کو عبور کر گئی ہے۔ ہندوستان اب چین کو 26.358 بلین ڈالر کا سامان بھیجتا ہے، جبکہ چین سے 87.905 بلین ڈالر کا سامان درآمد کرتا ہے یعنی ’’ووکل فار لوکل‘‘ اور چینی اشیا کے بائیکاٹ کی بات کھوکھلی نکلی۔
ایک طرف چین کی جارحیت اور تجاوزات کے خلاف ہندوستانی فوج اس ٹھٹھرادینے والی سردی میں بھی دن رات مصروف ہے تو دوسری جانب حکومت چین کے ساتھ اپنی تجارت بڑھارہی ہے۔قول و عمل کے اس تضاد کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہن میں شک و شبہات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ یہ درست ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین کی توسیع پسندی، جارحیت اور اشتعال انگیزی کو مکمل طور پرختم کیاجانابھی ضروری ہے۔
[email protected]
چین کی اشتعال انگیزی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS