ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں، پھر آگے بڑھیں گے ، 70 سال میں یہ سب سے بڑا ریفارم:تومر
ناگپور (ایجنسیاں) : مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر نے واپس لیے جاچکے زرعی قوانین پر چوکانے والا بیان دیا ہے۔ مہاراشٹر کے ناگپور میں ایک پروگرام کو خطاب کرتے ہوئے تومر نے کہا کہ زرعی قانون 70 سال کی آزادی کے بعد لایاگیاسب سے بڑا ریفارم تھا، لیکن کچھ لوگوں کی مخالفت کے بعد اسے واپس لینا پڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک قدم پیچھے ضرور ہٹے ہیںلیکن دوبارہ آگے بڑھیں گے۔ سرکار آگے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ ہم مایوس نہیں ہیں۔ دراصل کسان ہندوستان کی ریڑھ ہے۔ بی جے پی کے مختلف لیڈران وقتاً فوقتاً یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ زرعی قوانین کو واپس لایا جائے گا لیکن اس مرتبہ خود مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر نے اس طرح کا عندیہ دیا ہے کہ وہ ان قوانین کو مستقبل میں واپس لائیں گے۔اس دوران وزیر زراعت نے متنازع قوانین کی واپسی کے لئے کچھ لوگوں کو قصوروار قرار دیا۔وزیر زراعت نے کہا کہ ہم زرعی ترمیمی قوانین لائے، لیکن کچھ لوگوں کو یہ قوانین پسند نہیں آئے۔ یہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایک بہترین اقدام تھا لیکن حکومت مایوس نہیں ہے۔واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے یوپی اور پنجاب میں انتخابات سے عین قبل یعنی کچھ مہینے پہلے حیران کن فیصلہ لیتے ہوئے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کردیا تھا۔ قوانین واپسی سے قبل وزیر اعظم مودی اور وزیر زراعت نریندر تومر سمیت تمام بی جے پی لیڈران ان زرعی قوانین کا دفاع کر رہے تھے لیکن حکومت کے ذریعہ اچانک فیصلہ لینے سے سوال اٹھنے لگے۔ حزب اختلاف نے اس اقدام کو انتخابات کے پیش نظر لیا گیافیصلہ قرار دیا۔ 17ستمبر 2020 کو نافذ کئے گئے 3 نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں دہلی کی سرحدوں پر ملک کی تاریخ کی سب سے لمبی کسان تحریک شروع ہوئی تھی۔ پنجاب سے شروع ہوئی تحریک کی چنگاری پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ ہزاروں کسانوں نے ’دہلی چلو‘ مہم کا حصہ بن کر قانون کو پوری طرح سے مسترد کرنے کی مانگ کی اور دہلی کوچ کیا۔ پنجاب اور یوپی بشمول ہریانہ اور راجستھان کے ہزاروں کسانوں نے 378دنوں تک دہلی کی گھیرا بندی کی۔ اس دوران کئی مقامات پر سیکورٹی فورسز اور کسانوں کے مابین پرتشدد جھڑپیں بھی ہوئیں۔ لکھیم پور کھیری میں مظاہرہ کر رہے کسانوں پر کار چڑھا دی گئی۔ اس کا الزام وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرٹینی کے بیٹے آشیش مشر پر عائد کیا گیا۔ حزب اختلاف کی جانب سے اب اجے مشر کا استعفیٰ طلب کیا جا رہا ہے، تاہم وزیر اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔
کسان تحریک کے دوران ہریانہ میں کسانوں پر درج کئے گئے معاملے واپس لینے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ پہلے سرکار نے ریاست کے سبھی اضلاع کے ایس پی اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کو مکتوب لکھ کر مقدمات کے سلسلے میں رائے مانگی تھی۔ رائے ملنے کے بعد اب سرکار نے ضلع ڈپٹی کمشنر کو مقدمات واپس لینے کے احکامات دیے ہیں۔ ہریانہ میں کسانوں پر 276 مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے 4 قتل اور عصمت دری کے ہیں۔ یہ مقدمات واپس نہیں ہوں گے۔ 272 مقدمات میں سے 178 کی چارج شیٹ کورٹ میں ہے۔ 57 مقدمات ان ٹریس ہیں، اس لیے یہ واپس ہوجائیں گے۔ 29 مقدمات رد کرنے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے اور 8 کی مسترد کرنے کی رپورٹ تیار ہوچکی ہے۔قابل ذکر ہے کہ ایم ایس پی پر مرکزی سرکار جلد ہی کمیٹی بنائے گی، جس میں سنیکت کسان مورچہ کے نمائندے کو شامل کیا جائے گا۔ ابھی جن فصلوں پر ایم ایس پی مل رہی ہے وہ جاری رہے گی۔ ایم ایس پی پر جتنی خرید ہوتی ہے، اسے بھی کم نہیں کیا جائے گا۔