عبدالسلام عاصم
ملککی سیاست میں مثبت یا منفی رُخ پر اکثر اہم اور دوررس کردار ادا کرنے والی ریاست اتر پردیش میں حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن کی انتخابی حکمتوں کا سفر اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے جارہا ہے۔ بی جے پی کی کمان جہاں ایک سے زیادہ مرکزی اور ریاستی سورماؤں کے ہاتھوں میں ہے وہیں اپوزیشن کا محاذ عملاً سماجوادی پارٹی سنبھالے ہوئے ہے۔ بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کی دوڑ ابھی تک تو تیسری پوزیشن کیلئے نظر آ رہی ہے۔اجمالی تجزیے میں یہ منظرنامہ اتنا بھی غیر واضح نہیں کہ نتائج ایک دم سے چونکا دیں۔
حکمراں بی جے پی کا خیال ہے کہ مارچ 2022 میں یوگی آدتیہ ناتھ اپنی دوسری میعاد کا سفر شروع کریں گے۔ دوسری طرف سیاسی تجزیہ کاروں کا ایک حلقہ اکھلیش یادو کو تیسری اننگ شروع کرتا دیکھ رہا ہے۔خیالوں، اندازوں اور آرزوؤں کا یہ سفر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اُن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی طرف بڑھ رہا ہے جنھوں نے مغربی بنگال اور آسام میں بلا امتیاز حکمراں جماعتوں کا ساتھ دیا۔باوجودیکہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اتر پردیش میں اکھلیش ’بابو‘ بنگال کی ممتا ’دیدی‘ کی طرح مقابلہ جیت کر اپنی تیسری میعاد کا آغاز کریںگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی سیاست میں بی جے پی نے گجرات کی ترقی بھنانے سے جو سفر شروع کیا تھا اُسے ایک سے زیادہ ریاستوں میں جھٹکوں اور ہچکولوں کے بعد مغربی بنگال میں ایکدم سے بریک لگ گیا۔ محترمہ ممتابنرجی نے اقتدار بچانے کی دفاعی حکمت عملی کو فارورڈ لائن کے حملے کند کرنے تک محدود نہیں رکھا،بلکہ رواں صدی کا سب سے تہلکہ خیز انتخابی مقابلہ اپنے نام کر کے دکھا دیا۔
تو کیا اترپردیش میں ممتا بنرجی کی انتخابی حکمت عملی سے بہ انداز دیگر استفادہ کرنے کی علاقائی کوشش کامیاب رہے گی! یہ سوال اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ کیا اقتدار بچانے کی چالیں کسی کو اقتدار بدر کرنے کیلئے بھی اتنی ہی چابکدستی سے چلی جا سکتی ہیں!! اس کا جواب ڈھونڈنا اس لیے ضروری ہے کہ اترپردیش اور مغربی بنگال کی سیاست میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اترپردیش میں علاقائی سیاست بھی قومی تناظر میں کی جاتی ہے جس کا اثر ماضی میں بنگال اور پنجاب پر بھی پڑ چکا ہے۔ دوسری طرف بنگال کی سیاست آج بھی قومی سیاست کا روایتی حصہ ہے۔
ایسے میں کچھ انتخابی مبصرین کا کہنا ہے کہ بنگال میں ممتا بنرجی کی دفاعی لائن کی حکمتوں سے اترپردیش میں اپوزیشن بالخصوص سماجوادی رہنما اکھلیش یادو فارورڈ لائن کے لیے استفادہ کریں گے۔ میدانِ عمل میںاس کا نقشہ کیا ہوگا!اور اس کی ترتیب میں سماجوادی رہنما کو کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی سے راست اور بالواسطہ کس نوعیت کا اشتراک حاصل ہوگا!! اس پر دوٹوک ابھی کچھ نہیں کہاجا سکتا کیونکہ بنگال کے برعکس یوپی میںسیکولر کہلانے والی غیر سماجوادی اپوزیشن پارٹیاں بنگال کے بایاں محاذی شرکا کی کاغذی پہچان تک محدود نہیں، یہ کسی بھی وسیع تر اجتماعی منصوبے کوبنانے یا بگاڑنے کی مبینہ طور پر پوری اہلیت رکھتی ہیں۔ اقتدار بچانے کیلئے کوشاں بی جے پی کوبھی اس کا علم ہے اور وہ اسی حساب سے اپنی چالیں مرتب کرے گی!
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ عرف عام میں ممتا دیدی کے نام سے صرف پہچانی ہی نہیں جاتیں بلکہ مقبول بھی ہیں۔ اترپردیش میں اکھلیش یادو کو اسی نہج پر اب ’بابو‘ یا ’ ببوا‘ کہا جانے لگا ہے۔ کانگریس اور بی ایس پی اِس ابھرتی ہوئی پہچان سے کتنا اتفاق کرتی ہیں اِس کا انحصار دوسروں سے زیادہ سماجوادی پارٹی کی حکمت عملی پر ہے۔ ویسے اب تک کے منظر نامے میں مسٹر یادو کو محترمہ مایا وتی اور محترمہ پرینکا گاندھی کی داخلی تائید سے زیادہ ممتادیدی کی بیرونی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف بی جے پی بھی جسے اب تک خبروں سے زیادہ نظروں میں رہنے کا فائدہ پہنچتا آیا ہے، اِن سب چالوں کی خاموش تماشائی نہیںہے۔ایسے میں حتمی طور پر کوئی رائے زنی نہیں کی جا سکتی کہ خبروں سے کم اور افواہوں اور تبصروں کا کاروبار زیادہ کرنے والی میڈیا کی موجودگی میں رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے سیاسی کاروبار خاص طور پر مسلمانوں کے ووٹوں کے سیکولر حلقوں میں بکھراؤ کے پسِ پردہ امداد باہمی والا کھیل انتخابی نتائج کوکس کے حق میں کتنا متاثر کرے گا۔
مغربی بنگال اور اترپردیش میں ایک اور فرق یہ ہے کہ بنگال میں لسانی اور ثقافتی پہچان کو اہمیت حاصل ہے اور یوپی میںمذہبی پہچان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی باتیں بنگال میں بھی ہوتی ہیں لیکن جب زبان اور تہذیب کی بات سامنے آتی ہے تو باقی ساری باتیں پیچھے چلی جاتی ہیں۔ جبکہ اترپردیش میں اردو اور ہندی کا جھگڑا جہاںتقسیمِ ہند کے ساتھ ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا، وہیں ریاست کی تہذیب بظاہر آج بھی زبانوں سے زیادہ مذاہب سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسے میںیوپی میں جذباتی سیاست سے ہی فریقین کو کام لینا ہے۔ اس میں کسان تحریک، مہنگائی، بے روزگاری اور فرقہ وارانہ خلل کا تڑکا اپوزیشن کو کتنا فائدہ پہنچائے گا، اس کا انحصار آخری لمحے کی اثر انگیز چالوں پر ہے جو دونوں طرف سے کھیلی جائیں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زرعی قوانین کی مخالفت نے بھی محترمہ ممتا بنرجی کو فائدہ پہنچایا تھا۔ لیکن اِن قوانین کے سقوط نے بظاہر سیاسی اتھل پتھل کے ماحول میں ایک ٹھہراؤ سا پیدا کیا ہے۔بی جے پی ہر حال میں اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ بنگال میں ترنمول کانگریس نے بی جے پی کی یکطر فہ نظریاتی انتخابی مہم کے روایتی مقابلے میں ’ماں، ماٹی، مانُش‘ نعرے کی عوامی کشش شامل کر دی تھی۔ اس طرح دونوں مہمات ووٹروں پر الگ الگ طور سے اثر انداز ہوئیں۔ نتیجے میں بی جے پی کو اکثریت کے ووٹوں کی تقسیم کافائدہ نشستوں کے اعتبار سے ضرور پہنچا لیکن ترنمول کانگریس کو اکثریت کے انہی منقسم ووٹوں کے ساتھ اقلیت کے ووٹوں کا غالب حصہ مل جانے سے دوٹوک اقتدار رُخی فائدہ پہنچ گیا۔
اترپردیش میں بی جے پی چونکہ بر سر اقتدارہے، اس لیے اس کے پاس ایک سے زیادہ بہبودی اسکیمیں ہیں جنہیں وہ اسمبلی الیکشن میںبھنانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔ اپوزیشن اس کا مقابلہ خوش کُن اعلانات اور رفاہی وعدوں سے کر رہی ہے۔ مرکز میں چونکہ بی جے پی کی حکومت ہے اس لیے یوپی میں برسر اقتدار پارٹی کے ہر منصوبے کو انجام تک لانے کا سرمایہ بہ آسانی بہم رہے گا۔ اپوزیشن نے اگر الیکشن جیت بھی لیا تو اس کے وعدوں کی تکمیل کی فنڈنگ کون کرے گا! ووٹروں کو ایسی کوئی گتھی سلجھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اُن کی تمام تر دلچسپی معلنہ سہولتیں پانے سے ہوتی ہے اور یہی دلچسپی اُن کے ووٹ ڈالنے کے فیصلے پر بہ کثرت اثر انداز ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ پرینکا گاندھی محنت نہیں کر رہی ہیں۔ عوام کے درمیان اپنی صبح وشام گزار کر وہ کانگریس کی ساکھ بحال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہیں، لیکن ووٹر جانتے ہیں کہ کانگریس تنہا اقتدار میں نہیں آسکتی اور ایس پی اور بی ایس پی اپنے قد سے کسی کو ایک انچ اونچا ہرگزدیکھنا نہیں چاہیں گی۔ یہ معاشرے میں علم کی کمی، ایک سے زیادہ منفی نظریاتی وابستگیوں اور تکلیف دہ سماجی نابرابری کا افسوسناک شاخسانہ ہے۔ورنہ دلت مسلم اتحاد کی باتوں کا زمانہ اتنا پرانا نہیں ہوا کہ لوگ باگ بھول گئے ہوں۔ بدقسمتی سے اِس اتحاد کے شور نے دونوں فرقوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا دیا کیونکہ یہ شور جتنا بے ہنگم تھا دوسری طرف کی منصوبہ بندی اتنی ہی منظم تھی۔ دونوں کوششیں بباطن اتنی ظلمت رُخی تھیں جتنی اُن سے ذہن اور دل کی دوریوں کو تقویت ملی۔ نظریاتی عدم یگانگت کے ماحول میں طبقاتی تقسیم کی دہائی دینے والے دہائی دیتے رہ جاتے ہیں اور محدود مفادات کا فائدہ اٹھانے والے اپنا کام کر گزرتے ہیں۔
اس سیاسی پس منظر میں2022 کا نیا سال اترپردیش میں ووٹروں سے زیادہ سیاسی جماعتوں میں صحتمندشعوری تبدیلی کا متقاضی ہے۔جہاں تک سیاسی وسیع النظری اور لائحہ عمل میں بہتری لا کر اُسے انسان رُخی بنانے کی تڑپ کا تعلق ہے تو اُس پر کسی کا اجارہ نہیں۔ یہ توفیق حکمراں جماعت کو بھی ہو سکتی ہے اور اپوزیشن کو بھی۔ دونوں چاہیں تو سیاست کو اقتدار اور انتظار کے محدود دائرے سے باہر نکال سکتی ہیں۔ ذہنی کنڈیشننگ کرنے والے اور دلوں کو جیتنے پر یقین رکھنے والے اگر مل بیٹھ کر کوئی بیچ کا راستہ نکال لیں تو نئی نسل کے حق میں یہ نئے سال کا انتہائی امید افزا اور حیات افروز تحفہ ہوگا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]